• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم نے اب تک ثقافتی انقلاب زیادہ تر عوامی جمہوریہ چین کے حوالے سے ہی سنا ہے‘ چیئرمین مائوزے تنگ کی قیادت میں چین میں عوامی انقلاب آچکا تھا مگر اس کے باوجود چین کے عوامی انقلاب کو صحیح رخ دینے میں چین کی انقلابی قیادت کو کچھ دقتیں درپیش آرہی تھیں‘ اسی پس منظر میں چین کی انقلابی قیادت نے چین کے طول و عرض میں ’’ثقافتی انقلاب‘‘ شروع کیا۔ سچی بات یہ ہے کہ اس ثقافتی انقلاب نے ہی چین کے عوامی انقلاب کو صحیح رخ دیا‘ شاید سندھ کو بھی کسی ایسے ثقافتی انقلاب کی ضرورت تھی‘ مختلف وجوہات کی بنا پر سندھ کے غریب اور متوسط طبقے کے لوگ پاکستان کے موجودہ نظام حکومت اور خاص طور پر سندھ کی سیاست پر دیہی طاقتور لوگوں اور شہری طاقتور حلقوں کی بالادستی سےتنگ آچکے تھے‘ شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصے سے سندھ میں خاص رخ میں دھیرے دھیرے ہی صحیح مگر تبدیلی کی ہوائیں چلنا شروع ہوئی ہیں۔ آیئے کھل کر یہ بات کریں کہ یہ تبدیلی جو ابھی ابتدائی نوعیت کی ہے‘ صوفیانہ بھی ہے تو سندھ کے دیہات اور شہروں حتیٰ کہ سارے ملک پر مسلط طاقتور حلقوں کے خلاف شدید نفرت کی علامت کے طور پر بھی ابھر رہی ہے‘ سندھ کی تہذیب تو ویسے ہی صوفیانہ ہے‘ صوفی تحریکیں دنیا کے دیگر خطوں میں بھی چلی ہوں گی مگر مجھے کہنے دیجئے کہ سندھ کی دھرتی پر صدیوں سے جس صوفیانہ تحریک کا اثر رہا ہے وہ شاید دنیا کے دیگر ملکوں اور خطوں کی صوفیانہ تحریکوں سے مختلف ہے‘ سندھ کی تاریخ اس بات کی گواہی دے گی کہ صدیوں سے زمینی راستوں سے دیگر ملکوں سے آنے والے لٹے پٹے عوام کو اپنی دھرتی بسنے کیلئے دی اور ان کی پرورش میں کوئی کوتاہی نہیں کی‘ یہ آریا لوگ Aryans کون تھے؟ یہ بھی تو دوسرے ملکوں سے بیدخل کیے جانے کے بعد سندھ آکر بسے تھے مگر بعد میں وہ یہاں کے اعلیٰ نسل کے لوگوں کی شناخت اپناکر رہنے لگے اور صدیوں سے یہاں بسے ہوئے لوگوں کا Un-Aryans یعنی نچلی نسل کے طور پر ذکر کیا ‘ بہرحال آریا لوگوں کا ایک کریڈٹ ضرور ہے کہ انہوں نے ہمیشہ سندھ کا احترام کیا‘ یہاں تک کہ آریائوں کے ویدوں میں جن الفاظ میں دریائے سندھ کے اس حصے کا ذکر کیا ہے جو ٹھٹھہ اور بدین اضلاع میں سمندر میں گرتا رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی جن لوگوں نے سندھ کی صوفی تحریک کا مطالعہ کیا ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ اس تحریک کا مقصد انسان دوستی اور غریبوں و محکوم طبقوں کی ہمنوائی رہا ہے‘ سندھ کے معمولات زندگی میں آنے والی اس بتدریج تبدیلی کا مطالعہ کرنے پر محسوس ہوتا ہے کہ سندھ کے عوام اپنی تہذیب کے پرانے رخ یعنی صوفیانہ رنگ کو اختیار کرنے پر خاص طور پر اس وقت مجبور ہوئے جب کچھ عرصے پہلے سندھ کے قومی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کے عرس کے موقع پر شاہ لطیف کے مزار پر صوفی راگ گانے والوں اور سننے والوں کے خلاف دہشت گرد کارروائی کرکے کئی معصوم اور غریب زائرین کی جانیں لے لی گئیں۔
اس کے بعد شکارپور اور لاڑکانہ میں بھی ایسے دہشت گردی کے واقعات ہوئے‘ ان میں سے ایک واقعہ میں جے یو آئی سندھ کے رہنما شہید ہوگئے‘ اسی دوران سندھ اور بلوچستان کے بارڈر پر واقع ایک اولیاء اللہ شاہ نورانی کی درگاہ میں بھی ایسا ہی دہشت گردی کا واقعہ ہوا جس میں بھی کئی انسانی جانیں ضائع ہوگئیں‘ یہ وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ سندھ کی صوفی تحریک جہاں انسان دوستی کی مظہر اور لوگوں کے خلاف ایسی دہشت گرد کارروائیوں کے خلاف ہے وہاں سندھ کی صوفی تحریک نہ اسلام کے مختلف فرقوں میں عداوت میں یقین رکھتی ہے اور نہ سندھ میں رہنے والے دوسرے مذاہب کے لوگوں سے نفرت کرنے میں یقین رکھتی ہے‘ سندھ کی صوفی تحریک فقط اسلام کے مختلف فرقوں میں بلکہ مختلف مذاہب کے لوگوں کے لئے احترام‘ پیار اور محبت میں یقین رکھتی ہے اسی بات کی سندھ کے ممتاز صوفی شعراء اور مدبر مثلاً شاہ عبدالطیف بھٹائی‘ سچل سرمست اور سامی وغیرہ زندگی بھر وکالت کرتے رہے۔
مجھے یاد ہے کہ کوئی 15-10 سال پہلے سندھ کے کچھ دیگر صحافیوں اور دانشوروں کے ساتھ مجھے امریکہ میں قائم سندھیوں کی ایک تنظیم ’’ورلڈ سندھی انسٹیٹیوٹ‘‘ کی دعوت پر واشنگٹن میں ایک اہم مذاکرے میں شرکت کا موقع ملا‘ اس مذاکرے میں‘ میں نے ’’Save Sindh,Save South Asia ‘‘کے موضوع پر انگریزی میں لکھا ہوا ایک مقالہ پڑھا‘ جس میں سندھ کے عوام کی امن پسندی اور صوفی مزاج کا ذکر کرتے ہوئے سندھ کے قومی شاعر ’’شاہ عبدالطیف بھٹائی‘‘ کی ایک مشہور نظم کی چند سطریںquote کیں جس کے معنیٰ یہ تھے کہ ’’اگر وہ آپ کے خلاف کوئی غلط بات کہے تو بھی آپ کوئی جواب نہیں دیں‘ اس سلسلے میں جو پہل کرے گا‘ نقصان بھی اسی کا ہوگا‘‘ شاہ لطیف کا پورا شعر پڑھنے کے بعد میں نے اپنے اس مقالے کے آخر میں خواہش ظاہر کی کہ کاش اقوام متحدہ شاہ لطیف کے اس شعر کو Emblem of Peace (امن کی علامت) کے طور پر اختیار کرے۔ مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب اس مذاکرے کے خاص مہمان جو امریکہ کے ایک بڑے اسکالر ہیں اور اب میں ان کا نام بھول چکا ہوں نے اپنی صدارتی تقریر میں میرے اس مقالے کے حوالے سے شاہ عبدالطیف کے اس شعر کی زبردست تعریف کی اور اس بات سے اتفاق کیا کہ اقوام متحدہ کو بالکل شاہ عبدالطیف کے اس شعر کو Emblem of Peace کے طور پر اختیار کرنا چاہئے۔ اس مرحلے پر میں یہ بات بھی کرتا چلوں کہ سندھ کے کلچر کا یہ بھی ایک حصہ ہے کہ سردیوں میں سندھ میں بڑے لوگ اپنے بنگلوں کے بڑے کمروں میں ’’مچ کچہری‘‘ (الائو پر گپ شپ) کا اہتمام کرتے ہیں‘ اسی طرح زرعی زمینوں پر کام کرنے والے غریب ہاری و دیگر علاقوں میں غریب لوگ بھی مناسب مقامات پر یہ الائو جلاکر ان کے گرد رات بھر کچہریاں کرتے ہیں‘ مگر چند سالوں سے سندھ بھر میں یہ کچہریاں ایک نیا رنگ اختیار کرچکی ہیں‘ اب نہ بڑے لوگوں کی طرف سے یہ کچہریاں ہوتی ہیں اور نہ غریب لوگ اس طرح ان کے ہاں جمع ہوتے ہیں‘ اب سندھ کے پڑھے لکھے‘ دانشور‘ محقق‘ سمجھدار نوجوان سردی میں ان کچہریوں کا اہتمام خود کرتے ہیں‘ اس مرحلے پر یہ بات بھی کرتا چلوں کہ کچھ عرصے سے ’’سندھ صوفی ‘‘ کے نام سے ایک تنظیم وجود میں آئی جو وقت بہ وقت نہ فقط مچ کچہریاں کرتی رہتی ہے بلکہ نیا سال کسی تاریخی مقام پر مناکر وہاں مچ کچہریوں کا اہتمام کرتی ہے‘ اب تو اس نام سے ملتی جلتی اور تنظیمیں بھی بن چکی ہیں‘ ان کچہریوں میں سندھ کے اندر مختلف طبقوں اور مذاہب کے لوگوں کے درمیان یک جہتی کا بھی مظاہرہ کیا جاتا ہے‘ تقریباً ایک سال پہلے رمضان شریف میں سندھ کے ہندو ڈاکٹروں کے ایک گروپ نے حیدرآباد کلب میں مسلمان ڈاکٹروں کے اعزاز میں افطار پارٹی کا اہتمام کیا‘ یہ نہ فقط سندھ‘ پاکستان مگر برصغیر کی تاریخ کا اس قسم کا پہلا قدم تھا‘ بعد میں دیوالی کے موقع پر مسلمان ڈاکٹروں نے ہندو ڈاکٹروں کے اعزاز میں دیوالی استقبالیہ دیا‘ کچھ حلقوں کے مطابق یہ تقریبات سندھ صوفی تحریک کے ایک نئے رنگ کو تو نمایاں کرتی ہیں ساتھ ہی یہ تقریبات ہندوستان کے وزیر اعظم مودی کے چہرے پر ایک زوردار طمانچے کے مترادف بھی ہیں۔

تازہ ترین