• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

واشنگٹن میں جب سے ٹرمپ صاحب تشریف لائے ہیں ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھے۔ پوری دنیا کو اپنی ٹویٹس سے نچا رکھا ہے۔ اب ان کے دماغ پر افغانستان بری طرح سوار ہے اورافغانستان کے بہانے پاکستان کو دبائو میں لانے کا بخار تو ایسے لگتاہے کہ ان کے لئے ’’باری کا بخار‘‘بنتا جارہا ہے۔ جو موسم کے ساتھ اترتا چڑھتا رہتا ہے۔ٹرمپ کہتا ہے کہ داعش کو شکست دے گا وہ افغانستان میں مصنوعی ڈیڈ لائنز دے کر دشمنوں کو چوکنا نہیں کرنا چاہتا اور امریکی عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ امداد کی شکل میں دوستوں کو دے گا دشمنوں کو نہیں(یعنی پاکستان بارے پر اسرار خاموشی)۔ وہ چاہتا ہے کہ ہر امریکی شہری اور بچہ محفوظ ہو۔ روشن خیالی کے نئے باب متعارف کرائے جائیں۔ مذہبی آزادی کا تحفظ یقینی بنایا جائے اور ٹرمپ کے تمام خواب پورے ہوں۔ کوئی انہیں سمجھائے افغانستان ایسے فتح نہیں ہوگا، وہاں امن کے تقاضے کچھ اورہیں۔ صدیوں کی خونریزی والی سر زمین جہاں ہمیشہ جنگجو خون جوش مارتا ہے چپے چپے پر افغانیوں کی سوچیں، قبائل کی روایتیں تبدیل ہوتی ہیں۔ ہر قبیلہ خود مختاری چاہتا ہے۔ ان قبائل کی ایک مشترکہ خاصیت یہ ضرور ہے کہ انہیں کسی بھی صورت غیر ملکی تسلط قبول نہیں۔ یہ وہ خونی میدان جنگ ہے جو بڑے بڑوں کو نگل گیا۔ یہاں دنیا خزانے لوٹنے آئی مگر کنگال ہوکر گئی۔ قیمتی جانیں گنوائیں، دنیا بھر میں رسوائی بھی کمائی مگر یہاں سے کسی کو ملا کچھ نہیں۔ کابل جو کبھی خونی تخت کہلاتا تھا یہاں روس جیسی سپر پاور کو ایسی شکست ہوئی کہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ سچ تو یہ ہے کہ روس تو کابل کی شہ رگ کے قریب تھا مگر لاشیں، ٹینک، جنگی جہاز، گولہ بارود چھوڑ کر بھاگا۔ آج ٹرمپ ساری دنیا کی دشمنی مول لے کر یہ بازی صرف بھارت کے سہارے جیتنا چاہتا ہے مگر کس قیمت پر؟ کیا ہزاروں میل دور سے آئے یہ رنگ برنگے گورے صدیوں سے سنگلاخ پہاڑوں، غاروں، دشوار گزار راستوںکے مکین مختلف النسل افغان جنگجوئوں کو زمینی حقائق کے برعکس زیر کرسکتے ہیں۔ افغانستان راسخ العقیدہ مسلمانوں کی سر زمین ہے جہاں ان کی روایات سے ہٹ کر کوئی بھی نظریہ، ثقافت یا فیصلہ قابل قبول نہیں ہوگااور یہ بھی حقیقت ہے کہ اب یہ میدان جنگ جہادی رہاہے نہ نظریاتی۔ یہ جنگ خالصتاً کاروباری دہشت گردی ہے جس کے سوداگر بڑے گھاگ نشانے باز ہیں وہ اپنے اپنے مالی، نظریاتی ، جغرافیائی اور علاقائی مفادات رکھتے ہیں۔ وہ کسی بھی قیمت پر اپنے مفادات سے پیچھے ہٹنے کو تیارنہیں۔ سی پیک ہی ایک ایسا منصوبہ ہے جو تمام اسٹیک ہولڈر ز کو ماسوائے امریکہ بہادر اور بھارت سب کو اس خطے میں یکجا کرتا ہے اور دنیا بھر کو امن کی ضمانت دیتا ہے۔ ٹرمپ کوکون سمجھائے کہ بھارت کی سازشی سوچ خطے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ اب اس کے چھوٹے موٹے بالکے مالدیپ، بھوٹان، نیپال خصوصاً سری لنکا ہاتھ سے نکل کر چین کے زیر اثر جا چکے ہیںجو یقیناً آنے والے وقتوں میں پاکستان کے مفادات کا تحفظ بھی کریں گے۔ خطے میںصرف بنگلہ دیش کو بھارت کی اشیرباد حاصل ہے جو حسینہ واجد کے اقتدار تک ہی محدود ہے جیسے ہی حالات نے پلٹا کھایا تو بھارت بالکل تنہا ہو جائے گا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ افغانستان میں بھارت کی سازشی تھیوری دنیا کے مفاد میں نہیں۔ زبردستی یا طاقت کا کوئی بھی فارمولا خطے بلکہ پوری دنیاکو جنگ کی ایسی آگ میں جھونک دے گا کہ اگلی پچھلی کسریں نکل جائیں گی۔ عام افغانی اس سازشی سوچ کو بڑی اچھی طرح سمجھتا ہے لیکن افغان حکمران نہیں۔ شاید ان کے مفادات اور بقاان سازشوں سے ہی جڑی ہے عوامی مفادات سے نہیں۔ افغانستان میں بھارت کے ذریعے جو ثقافتی تبدیلی کے بیج بوئے جارہے ہیں اور بندوق اور گولی سے جو تبدیلی لانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوگی۔ جنگ افغانیوں کے خون میں رچی بسی ہے ان کے انفرادی ، مالی مفادات اس سے بھی بڑھ کر ہیں یا یوں سمجھ لیں افغان بھارت گٹھ جوڑ امریکہ کے جوڑوںمیں بیٹھ جائے گا مگر کامیابی نہیں ملے گی۔ یہ داعش، القاعدہ، پاکستانی و افغانی طالبان اور حقانی نیٹ ورک ، آخر کس نے ان کو پروان چڑھایا اور کیوں؟ آج بھارت افغانستان میں جو امریکہ کا سب سے بڑا سہولت کار بنا بیٹھاہے کوئی بتا سکتا ہے کہ اپنی سازشوں کے عوض امریکہ کو کیا دھوکے کا سودا بیچ رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ جہاں امریکہ جیسی سپر پاور کے مفادات جنگ سے جڑے ہوں اس کی معیشت جنگوں سے ہی چل رہی ہو وہ کہاں دنیا میں امن و سکون ہونے دے گا۔ ٹرمپ صاحب کو اگرچہ سمجھانا مشکل کام ہے مگر یاد رکھیں افغانستان کے موجودہ حکمرانوں اور مودی سرکار کا کاروبار بھی اس جنگ سے چل رہا ہے اور وہ اس کا دائرہ کار پاکستان تک بڑھانے کی سازشیں کررہے ہیں۔ کیا ٹرمپ بہادر یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ خطے کے اہم اسٹیک ہولڈرز پاکستان، چین ، روس ، وسط ایشیائی ریاستیں، ایران اورکسی حد تک ترکی کی موجودگی میں وہ صرف بھارت کی سازشی تھیوریوں کی بنیاد پر افغانستان میں امن قائم کرسکتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ آ پ عدن (یمن) میں فریقین کے درمیان جھڑپوں پر تشویش ظاہر کریں اور مکالمے کی ضرورت پر زور دیں اور فکر مند ہوں کہ یمن کے عوام کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگا مگر افغانستان میں آپ کی سوچ بالکل مختلف ہو۔ یمن میں آپ مذاکرات کی بات کریں افغانستان میں انکار۔ جب فیصلے بندوق کی نوک پر کرنے کی کوشش کریں گے تو تباہی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ مودی ، اشرف غنی جو رات کی تاریکی میں ٹیلی فونک سازشیںبُن رہے ہیں پاکستان اس سے غافل نہیں۔ ٹرمپ بہادر ایران میں کھلے عام حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کا اعلان کریں اور بغاوت پر اکسائیں اور خطے میں موجود اپنے کمانڈروں کو اختیارات دیں کہ دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کی آڑ میں پاکستان پر حملہ کریں تو یہ کھلی دہشت گردی نہیں تو کیا ہے؟ ٹرمپ کو یہ سمجھ کیوں نہیں آتی کہ جنگوں میں آخری حد تک ایک ہی راستہ بچتا ہے وہ ہے مذاکرات کا۔ اگر نیت ٹھیک ہے تو افغانستان کے حوالے سے زیر بحث تمام اسٹیک ہولڈرزاور جنگجو گروپوں کو مذاکرات کی میز پر لائیں ورنہ امریکی دبائو پر چپ سادھنے والے ممالک کو یہ جان لینا چاہئے کہ خون و بارود کی اس تجارت میں عنقریب ان کی بولی بھی لگنے والی ہے۔ جب ناانصافی اور دھونس حدسے تجاوز کر جائیں تو خاموشی سے تماشا دیکھنے والے اور تالیاں پیٹنے والے ایک برابر ہوتے ہیں، پھر گندم کے ساتھ گیہوں بھی پستا ہے۔ 80 ء کی دہائی میں پاکستان امریکی دوستی کی جن بھول بھلیوں میں تھا آج بھارت کے دماغ پر وہ نشہ بن کر سوار ہے جس کا عملی مظاہرہ افغانستان میں ہورہا ہے۔ امریکی دھمکیوں کا محض روایتی جواب دینے سے کچھ نہیں ہوگا، دشمن کو اپنے وجود کا احساس دلانا ہوگا جس کا ہرگز مقصد جنگ یا محاذ آرائی نہیں بلکہ قومی بصیرت اور دور اندیشی پر مبنی فیصلے ہیں جن میں سب سے پہلے تو افغان مہاجرین کی فوراً واپسی یقینی بنانا ہوگی کیونکہ یہ مسئلہ سیکورٹی رسک بن چکا ہے۔ معاشرے کی فلاح اور ملکی معیشت کے لئے ٹھوس اقدام اٹھانا ہوں گے۔ خود داری کے اظہار کا جو وقت آن پڑا ہے وہ امتحان ہے، گر سرخرو ہوگئے تو نسلیں راج کریں گی وگرنہ برطانیہ کی دو سو سالہ غلامی کے بعد امریکہ کی غلامی غیر معینہ مدت تک ہمارے سر پر مسلط کر دی جائے گی۔

 

تازہ ترین