• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیارے دیس میں آج کل9 سالہ نوخیز جمہوریت کی جان کوخطرات لاحق ہونے کی بازگشت مسلسل شدت سےسنائی دے رہی ہے، یہی نہیں اس لاغر جمہوریت کو بچانے اور اس کے تحفظ کی فکر میں کئی’’معمر‘‘ ہلکان بھی ہوئے جارہے ہیں، سب سےحیران کن پہلو یہ ہے کہ پتا نہیں چل پا رہا کہ بےچاری جمہوریت کے درپے ہے کون؟ وہ کون سے ہاتھ ہیں جو اس کےجسم سے سانسوں کا رشتہ تمام کردینا چاہتے ہیں؟ خطرے کی بوآ کہاں سے آرہی ہے، یہ بو پھیلا کون رہا ہے اور سونگھنے والا کون ہے؟ اس ناتواں کو خطرے میں ڈالنے والا اور خطرات سے بچانے والا جری کون ہے؟ اب تک کی اطلاع کے مطابق اس کا سراغ دور دور تک نہیں ملا، تاہم بعض مشہور سیاسی سازندے موجودہ منظرنامے میں مسلسل ایک ہی دھن بکھیرنے میں مصروف ہیں کہ جمہوریت کو سخت خطرہ ہے اور طاقتور آرکسٹرا کی جوابی دھن ہے کہ جمہوریت کو ان سے کوئی خطرہ نہیں، کوئی خطرہ ہوا تو ’’سیسہ پلائی دیوار‘‘ بن جائیں گے۔!
چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب جسٹس ثاقب نثار نے عدالتی پالیسی ساز کمیٹی سےخطاب اور اس سے قبل قصور واقعہ پر ایک ڈاکٹر کی خوفناک و دردناک افواہ پر ازخود نوٹس کی سماعت کی تو قصداً جمہوری گلشن کے تحفظ کی قسم ان الفاظ میں کھائی کہ ’’وعدہ کرتا ہوں کہ جمہوریت کو کبھی پٹڑی سے اترنے نہیں دیا جائے گا‘‘ ایک اور جگہ فرمایا، ’’بھول جائیں کہ یہاں کوئی سازش ہورہی ہے، آئین کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے اس سے پہلو تہی نہیں کریں گۓ‘‘ پھر کہا ’’ملک میں عظیم لیڈر اور عظیم منصف آجائیں تو ملک کی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتأ‘‘، جواب سادہ ہے، عظیم لیڈر اپنی صفات، عوام کی منشا اور اللہ کی رضا سے بنتا ہے جبکہ منصفی کا پیمانہ آپ کے ہاتھ ہے۔
چند روز قبل پاک آرمی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کےحوالے سےڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آرمی چیف قانون کی پاسداری پر یقین اور جمہوریت کا احترام کرتے ہیں، جمہوریت کو فوج سے نہیں غیرجمہوری حرکتوں سے خطرہ ہے، ملک میں جمہوریت کا چلنا ضروری ہے۔ ملک کے آئینی سربراہ وزیراعظم پاکستان شاہد عباسی نے بھی حالیہ ایک ملاقات میں یقین دلایا اور واضح کیا کہ ’’جمہوریت کوکوئی خطرہ نہیں‘‘!
سیاسی منظرنامے پر نگاہ دوڑائیں تو ملک کے طول و عرض میں پھیلےچھوٹے بڑے قد کے سیاسی قائدین بھی جمہوریت کی نقاہت کے اشارے دے رہے ہیں پھر خود ہی شب خون کی کسی بھی سازش کو ناکام بنانے کا راگ بھی الاپتے رہتے ہیں، بعض لیڈر صاحبان اس قدر بےحوصلہ ہوجاتے ہیں کہ دن میں کئی مرتبہ جمہوریت کی تباہی، بربادی اور خاتمے کی برسرعام نوحہ خوانی کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ جمہوریت کو ووٹ کے ذریعے معرض وجود میں لانے والا ایک عام آدمی ایک عام ووٹر ’’بچہ جمہورہ‘‘ بن کر تماشا اہل کرم دیکھنے اور جذباتی ڈائیلاگ و اداکاری سے لطف اندوز ہونے پر مجبور ہے، وہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ جمہوریت پیدا ہوتے ہی آخر اتنی غیرمحفوظ کیوں ہوجاتی ہے؟ اگر چند سال زندہ رہ بھی جائے توباقی ماندہ زندگی آئی سی یو میں گزارنے پر مجبور کیوں ہے، جب بااصول، باکردار، بااختیار اور باہتھیار اس کے تحفظ کی یک زبان ہوکر قسمیں کھانے میں مصروف ہیں تو پھر اس بیچاری جمہوریت کے پیچھےکون پڑا ہے؟
عام آدمی پوچھتا ہے کہ کیا جمہوریت کو خطرہ اس نااہل سے جو کبھی سڑکوں پر، کبھی چوراہوں اور کبھی جلسوں میں ’’کیوں نکالأ‘‘ کی گردان کررہا ہے، جو اپنی بےدخلی کو جمہوری نظام کے لپیٹے جانے کی طرف پہلا قدم قرار دے رہا ہے، جو بار بار پارلیمنٹ کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور عوام کےفیصلوں کو تسلیم اور حق حکمرانی کے عزت و احترام کو ملحوظ رکھنے کی بات کر رہا ہے، وہ جو نکالےجانے کے بعد دو آئینی اداروں پر باہمی گٹھ جوڑ کےالزامات مسلسل دہراتا پھرتا ہے، وہ جو بداعتمادی کے باوجود عدالتوں اور بھرے عوامی اجتماعات میں خود کو پیش کررہا ہے؟ عام آدمی پوچھتا ہے کہ کیا جمہوریت کو خطرہ اس صادق و امین سے ہے جو خود رکن اور عوام کے ٹیکسوں سے ملنے والے تمام فوائد اٹھاتا ہے پھر بھی اداروں پرسرعام لعنت بھیجتا ہے، جو قومی اور نجی اداروں کے چھوٹے ملازم سے لے کر ان کے سربراہوں تک کو عجیب قسم کے القابات سے نوازتا ہے، بڑے بڑے دعوئوں کے ساتھ پایہ تخت صوبے کے سرکاری ہیلی کاپٹر کا استعمال کرتا ہے، تبدیلی کا نعرہ لگاتا ہے لیکن خود کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتا، کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنا چاہتا ہے لیکن اپنے صوبے میں کرپٹ سرکاری عناصر کو کٹہرے میں نہیں لاتا۔!
عام آدمی پوچھتا ہے کیا جمہوریت کو خطرہ، سیاسی مفاہمت کے جادوگر شہنشاہ سےجو خود کو سب پر بھاری گردانتا ہے، اقتدار کی خواہش میں طراری، بیوپاری اور جادوگری کا اس قدر ماہر ہے کہ کبھی خود ان سے جاملتا ہے جو اپنی مٹی سے وفاداری کی بجائے خود غیر کے محتاج ہیں، جو جمہوریت کو بہترین انتقام سمجھتا ہے لیکن طاقتوروں کی آنکھ کا تارا بن کر سیاسی افق پر چھانے اور اقتدار کی منزل پانے کو بےتاب ہے، کبھی چھوٹا بھائی بن کر قربت کےآخری درجے پر فائز ہوتا ہے اور سیدھا گلے جال گتا ہے، کبھی اسی کا سیاسی دشمن بن کر دل ہی نہیں سب کچھ جلا دینا چاہتا ہے!
عام آدمی پوچھتا ہے، کیا جمہوریت کو خطرہ اس سادہ لوح عوام سے ہےجن کے ووٹ کو قیمتی قرار دے کر ہر قیمت پر حاصل کیا جاتا ہے اور پھر اسی ووٹر کو دھتکار دیا جاتا ہے، کیا ان بےچاروں سےخطرہ ہےجن کو اقتدار کی سیڑھی بنایا جاتا ہے پھر انہیں لاچارگی کے کنویں میں گرا دیا جاتا ہے، جنہیں تقدیر بدلنے کا خواب دکھایا جاتا ہے اور پھر اپنی قسمت بدل کر بےحال کردیا جاتا ہے، جنہیں اچھی صحت، تعلیم،صاف پانی اور دیگر بنیادی سہولتیں و حقوق دینے کی بجائے ان پر چمکتی، دمکتی سڑکیں، پل اور نئی نویلی میٹرو بسوں کا قرض لاد دیا جاتا ہے، جنہیں جمہوریت کے فوائد بتائے اور سمجھائے شدومد سے جاتے ہیں پھر انہیں شخصی ڈکٹیٹر شپ کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے، جنہیں روشن مستقبل کی آس دلائی جاتی ہے لیکن تاریک راہوں میں مار دیا جاتا ہے، جنہیں فرض شناسی، ایمانداری، وطن سے محبت میں سب کچھ قربان کرنے کا درس دیا جاتا ہے اور دیار غیر سے اربوں ڈالرز اور اثاثے واپس لانے کے وعدوں کے سپرد کردیا جاتا ہے!
عام آدمی پوچھتا ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں کو غیرمرئی طاقتوں کے زیراثر کرنے سے، انتہاپسند سوچ کو پروان چڑھا کر روشن خیالی اور ترقی پسند خیال کو بندگلی میں دھکیلنے سے، شدت پسندی کی ترغیب دینے والے عناصر کو سیاسی بنانے سے، دھرنوں اور بےہنگم احتجاج کی پشت پناہی اورحمایت سے، مل کر قومی دفاع کی بجائے مقابلے کی تنہا پرواز کو ترجیح دینے سے، معافی کی بجائے سخت سزا دینے سے، سیاست کو مطعون اور غیرپسندیدہ افراد کو نائب بنانے سے، جمہوری نظام کی مضبوطی کی بجائے رخصت کرنے کے حیلے بہانوں سے، الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر زبان بندی اور آواز دبانے سے، اپنا گھر صاف کرنے کی بجائے دوسروں کا گھر ٹھیک کرنے کی پریشانی سے اور عوام کو حق حکمرانی دینے کی بجائے انہیں قربانی کا بکرا بنانے جیسی پرخطرخدمات سےجمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں تو ان سیاسی شعبدہ بازوں کے نت نئے کرتب اور نئے پرانے منتر بھلا جمہوریت کے لئے کیسےخطرہ ہوسکتے ہیں، پھر آئے روز جمہوریت زندہ باد کے نعرے لگانے، جمہوریت کےتحفظ کی قسمیں کھانے اور جمہوریت کےحق میں قربان ہونے کے دعوے اتنی شدومد سے کیوں کئے جارہے ہیں، اگر کچھ غلط نہیں کیا تو پچھتاوا اور متواتر وضاحتیں کیوں، گزشتہ چند ماہ میں ایسا کیا ہوگیا ہے کہ سب کہ سب جمہوریت کو ان دیکھی بیماری لگ جانے اور جلد انتقال کرجانے کے خدشے و غم میں نڈھال ہوئے جارہے ہیں، اگر اس متوقع حادثے میں کسی کا ہاتھ نہیں تو دل کا بوجھ زبان سے ہلکا کرنا بند ہوجانا چاہئے، ذہن و ایمان کو تازہ کرتے ہوئے اللہ کا نام لے کر اپنی اپنی آئینی حدود کا تعین کر ڈالنا چاہئے۔، یقین رکھیں آپ کا اخلاص سلامت رہا تو جمہوریت کو پہلے کوئی خطرہ تھا نہ آئندہ کبھی ہوگا، اللہ اللہ خیر سلا.....!

تازہ ترین