• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں سرمایہ کاری کی اشد ضرورت اور لامحدود مواقع کے باوجود دولت مند طبقہ اپنے ملک میں پیسہ لگانے کی بجائے محض ٹیکس بچانے کے لئے زیادہ تر غیر قانونی طریقوں سے اپنا سرمایہ بیرون منتقل کر کے وہاں کاروبار میں لگانے اور قیمتی اثاثے خریدنے میں مصروف ہے جس سے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ جیو نیوز کی دبئی لیکس کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں ہزاروں پاکستانی کھربوں روپے کا سرمایہ ہنڈی، حوالہ یا دوسرے ناجائز ذرائع سے بیرون ملک بھیج چکے ہیں۔ دستاویزی ثبوتوں کے مطابق 7ہزار سے زائد پاکستانیوں نے گیارہ کھرب روپے سے زیادہ رقم صرف دبئی منتقل کی ہے جو مشرق وسطیٰ کا ’’ٹیکس ہیون‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان سے دولت بیرون ملک بھیجنے والوں میں سیاستدان، ریٹائرڈ جرنیل، سابق جج، بزنس مین، بیورو کریٹس، وکلا، ڈاکٹر اور دوسرے لوگ شامل ہیں۔ دبئی کے انتہائی مہنگے علاقوں میں ان کی کروڑوں کی جائیدادیں اور بینک بیلنس ہیں۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنی شناخت چھپانے کے لئے اپنے غریب ملازمین یا کسی نہ کسی فرنٹ مین کے نام پر بھی اثاثے خریدے ہیں مگر ملک کے متعلقہ ادارے ان کے بارے میں بالکل بے خبر ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے پاکستانیوں کے بیرون ملک اکائونٹس اور اثاثوں کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بجا طور پر سٹیٹ بینک ، ایف بی آر اور سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے مکمل ریکارڈ طلب کر لیا ہے اور اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ بادی النظر میں یہ رقم غیرقانونی طریقے سے کمائی اور باہر بھیجی گئی، یہ ملکی اثاثہ ہے جسے واپس لایا جانا چاہئے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی نے بھی متعدد بار متعلقہ اداروں سے اس بارے میں تفصیلات طلب کی ہیں لیکن انہوں نے لاعلمی کا اظہارکیا صرف ایف آئی اے کے پاس ایسے سو افراد کی فہرست ہے جو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ بیرون ملک سرمایہ منتقل کرنے کے حوالے سے باقاعدہ قانون موجود ہے جس کی مسلسل خلاف ورزی کی جار ہی ہے۔ دبئی میں اثاثے خریدنے والے پاکستانیوں نے امریکہ، برطانیہ اور دوسرے امیر ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ان میں سے 95فیصد نے اپنے ٹیکس گوشواروں میں کبھی ان اثاثوں کا ذکر نہیں کیا ملکی قوانین پاکستانیوں کو پابند بناتے ہیں کہ وہ بیرون ملک اپنی جائیدادیں ظاہر کریں۔ تاہم اس حوالے سے بین الاقوامی سطح پر بھی سخت قوانین آنے والے ہیں۔ چند ماہ میں ایک بین الاقوامی معاہدے پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا جس کے تحت معاہدے میں شامل ممالک غیر ملکیوں کے اکائونٹس اور اثاثوں کی تفصیلات ظاہر کرنے کے پابند ہوں گے۔ جس سے لوگوں کو پکڑنے میں آسانی ہو گی۔ صرف دبئی نہیں، لندن میں بھی پاکستانیوں کی قیمتی جائیدادیں ہیں جہاں برطانوی حکومت نے ایک قانون نافذ کیا ہے جس کے تحت آمدنی سے زائد اثاثے ضبط کر لئے جائیں گے۔ پاکستانیوں کو سزا سے بچنے کے لئے اپنے معاملات قانون کے مطابق درست کرنا ہوں گے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم کے مشیر مفتاح اسماعیل نے ملک میں گرینڈ ایمنسٹی کی طرز پر ایک سکیم لانے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت پاکستانی جرمانہ یا ٹیکس دے کر بیرون ملک جائیدادیں اپنے پاس رکھ سکیں گے یا ان کی رقوم پاکستان واپس لا سکیں گے۔ اس سکیم سے فائدہ اٹھانا چاہئے حکومت پاکستان کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ لوگ پاکستان سے سرمایہ باہر کیوں لے جاتے ہیں۔ اگر ملک میں سرمایہ کاری کے لئے ماحول کو سازگار اور محفوظ بنایا جائے اور مناسب ترغیبات دی جائیں تو یہ بے قاعدگی نہ ہواس سلسلے میں متذکرہ ایمنسٹی سکیم کے علاوہ بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً ٹیکس کلچر کو فروغ دیا جائے، ناجائز کمائی کے راستے بند کئے جائیں اور بیرون ملک دولت کی منتقلی روکنے کے قوانین پر سختی سے عمل کرایا جائے پاکستان میں کمائی گئی دولت پاکستان ہی میں رہنی چاہئے تاکہ غربت اور بے روزگاری ختم ہو بیرونی قرضوں سے نجات ملے اور ملک ترقی و خوشحالی سے ہمکنار ہو۔

تازہ ترین