• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب نے پاکستان کے سیاسی قلب لاہور میں قومی تاریخ کی صدائے بازگشت کی گونج اور سیمابی سیاسی طوفان انگیز بادِ نو بہار سے وطن کا گوشہ گوشہ سرفراز و شاداں کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کبھی کہا تھا ’’واحد سیاسی پارٹی جو ’’قانون ‘‘کی زد میں آئی وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ واحد سیاسی قوت جو قانون کے شکنجے سے بچ نہیں سکی، وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت ہے۔ ان کے علاوہ ہر شخص قانون کی گرفت سے آزاد گھوم پھر رہا ہے۔ برطانوی قانون کو ختم ہوئے تئیس برس (اب 70برس) ہو چکے لیکن مردہ برطانوی قانون کو ازسرنو متحرک کر کے لندن میں موجود پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو پکڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نااہل قرار دینے کے لئے قائم کئے گئے ٹربیونلز پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کے خلاف کام کر رہے ہیں اور احتساب کی نام نہاد تلوار صرف پیپلز پارٹی کے سروں پر لٹک رہی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے بینک لوٹنے والے لٹنے والے لوگوں کی تصدیق کریں جبکہ انہیں چھوڑ دیں جنہوں نے بینک لوٹنے میں ان ڈاکوئوں کی مدد کی ہو!‘‘
ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک لوٹے جانے اور جن کا ووٹ بینک لوٹا گیا انہیں دار و رسن کی جان لیوا گھاٹیوں سے گزارنے کی داستانوں نے ایک بار پھر ذہنی یادداشت کے کواڑوں پر بے محابا ایک شوریلی سی دستک نے پاکستانیوں کے سیاسی شعور کی عظمت خاک بسر کرنے والوں کی بےبرکت اور سوہان روح یادوں کی انگار وادیوں میں اترنے پر مجبور کر دیا ہے!
پاکستان پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک 1977، 1988، 1993، 1997ء میں ڈاکہ زنوں کا مرغوب ترین ہدف رہا۔ 1977ء سے لے کر آصف علی زرداری کے دور صدارت تک پاکستان پیپلز پارٹی کے حکومتی دورانیوں میں پس پردہ قوتوں، عدالتی فعالیت، دائیں بازو کے قلمکاروں اور حکمرانوں نے کس قدر بہیمانہ سیاسی مہم جوئیوں سے پیپلز پارٹی کو جنازے اٹھانے، ہجرتیں کرنے اور ذلتوں کی ماری زندگی کو کس قسم کے تاریک دن اور راتوں میں اپنے سانسوں کی مدت پوری کرنا پڑی۔ یہ پاکستان کی قومی سیاسی تاریخ کا خون آلود ترین باب ہے جس کے ہر لفظ پر ظلم اور ناانصافی کی برچھی رکھی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی ملک و قوم کی خدمت اور اس خدمت کے نتیجے میں پارٹی لہو میں ڈوبی مظلومیت لکھی جا سکے گی؟ شاید نہیں۔
پیپلز پارٹی اپنی مرکزی قیادت کی صورت میں صدائے بازگشت کو ہے لیکن آصف علی زرداری کے دور صدارت کے دورانئے میں اس کے 'CARPET BEGGERSنے پارٹی کے قومی اور نظریاتی مقام کو اپنی کم نگاہ ہوس پرستانہ چوریوںسے لخت لخت کر دیا۔ موضوع سخن کسی اور جانب نکل رہا ہے، واپس پیپلز پارٹی پر آتے ہیں!
پاکستان پیپلز پارٹی قیام سے لے کر اب تک صرف آگے بڑھی ہے اس کی پسپائی میں ہمیشہ پیش قدمی کا جوہر پوشیدہ ہوتا ہے، پارٹی میں موجود ہر مردِ دانا کو یہ معلوم ہے، ایسا ہی ہے! برسوں پہلے، غالباً 6اگست 1990ء کو، جن لوگوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے بارے میں ’’مردہ نہلا دیا، اسے کفن آپ پہنا دیں‘‘ کی امیچورٹی کا ثبوت دیا تھا، وہ جسمانی طور پر ہی نہیں تاریخی طور پر بھی مردہ ہو چکے۔ گڑھی خدا بخش کی شہادت گاہوں سے موچی دروازے کی تب و تاب جاوداں تک ذوالفقار علی بھٹو کی صدائے بازگشت کی گونج نے چاروں اور لوگوں کو چونکا دیا، چوکنا کر دیا، وہ ہمہ تن گوش ہو گئے ہیں، جنہوں نے عمر رسیدگی کے باوجود ’’مردہ نہلا دیا ہے‘‘ جیسے غیر معروضی تاریخی فارمولے کی بنیاد رکھی تھی وہ تاریخ کی حرکیات سے لاعلم تھے۔ چنانچہ ان کی اس نظریاتی سرشت ہی کو موت نے چاٹ لیا۔ غلام اسحاق خان سے لے کر ضیاء الحق تک اس موت کی عبرت سرائے ہیں۔ ان دونوں حضرات کے ساتھ ان سارے کے سارے لکھاریوں، تجزیہ کاروں، ستارہ شناسوں، سیاسی مخالفین اور پس پردہ کرداروں کو بھی اطمینان سے شامل کر لیں، اس موت نے انہیں ہی آ لیا۔ یہ وہ تھے جنہوں نے 5؍ جولائی 1977ء سے ’’پاکستان پیپلز پارٹی ختم‘‘ کی غیر معروضی تاریخ کا علم اٹھایا۔ اس علم کو تاریخ کے معروضی حقائق کے جھکڑوں نے زمیں بوس کر دیا۔ موچی دروازے میں ذوالفقار علی بھٹو کا داماد ان کی صورت میں نظریات کی ترجمانی کر رہا تھا۔
آج ان تمام کرداروں میں سے کسی بندئہ خدا کا نام تک سامنے نہیں آتا۔ 17؍ اگست 1988ء اعجاز الحق کی ذات سے آگے جانے سے انکار ہو گئی ہے۔ آج پاکستان کے اجتماعی حالات تمام ظاہری اور خفیہ طاقتوں کو بھٹو کی قبر پر جا کے معافی مانگنے کے تاریخی جبر کی طرف لئے جا رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بغیر پاکستانی عوام ہمیشہ ڈسٹرب رہتے ہیں، انہوں نے اس کی کسی انتخابی شکست کو ’’میرٹ‘‘ قرار نہیں دیا، وہ اس حوالے سے ہمیشہ فرضی عدم اتفاق اور خلجان کا شکار رہے، چنانچہ پیپلز پارٹی نہیں ہارتی، افراد ہار جاتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی پرخامہ فرسائی کے لئے کسی فرد یا گروپ نے کوئی ہدایت نامہ میرے ہاتھ میں نہیں پکڑایا نہ کسی نے کبھی بھی، کہیں بھی اور کسی بھی نوعیت کے دبائو سے کام لیا، صرف پاکستان پیپلز پارٹی کے مظلوم ترین ہونے، اس کی مرکزی قیادت اور اس کے کارکنوں کو موت کی گپھائوںاور جھوٹ کے اندھیروں میں رکھنے کے بے دید اور بے رحم تسلسل نے قلم اٹھانے کی سچائی اور ناگزیریت کا قائل کیا۔ 4؍ اپریل 1979ء کی شب آنے تک اسلام اور روایات کے خودساختہ مفسروں کی من مانی تعبیروں کے ہاتھوں، گزرے تقریباً ساڑھے تیرہ سو برسوں میں اجتماعی پیمانے پر جو کچھ ہوا، اس کی آئوٹ لائن البتہ پوری طرح ادراک میں آ گئی، ذوالفقار علی بھٹو نے اس تناظر میں کم از کم برصغیر کی حد تک قریب قریب ساڑھے سات سو برس بیت جانے کے بعد ایک عام آدمی کے دل میں اس فراموش کردہ جرثومے کو نہایت طاقتور آن بان کے ساتھ زندہ کر دیا، یہ کہ میری اپنی ایک ذات ہے، میں خود ایک اکائی ہوئی، میرا ایک اللہ کے علاوہ کوئی خالق نہیں، پھر مجھے صدیوں سے زیر نگیں مخلوق ہونے اور رہنے کی روایت میں کیوں دھکیلا گیا ہے؟ میں خالق کا عام آدمی ہوں تو سب عام آدمی ہیں، لہٰذا اس ایک اللہ کے علاوہ میرا کوئی دوسرا آقا نہیں، جس طرح انسانی قوانین و ضوابط کی رو سے اوروں کا مجھ پہ حق ہے بعینہٖ میرا ان پر حق ہے، ہم ہر جہت سے برابر ہیں، مساواتی ہیں۔
بس یہ تھا ذوالفقار علی بھٹو کا تصور جو اس نے عام آدمی کے ذہن میں راسخ کر دیا، ملت اسلامیہ کے اتحاد کو آواز دی، افروایشیائی اقوام کی تیسری دنیا کو عالمی برادری کے برابر کی اکائی ہونے کا شعور بخشا، سو عالم تمام سے لے کر پاکستان تک، ’’وہ‘‘ سب جمع ہوئے جنہیں اللہ کی حاکمیت کی یہ تفسیر و تعبیر کبھی بھی قبول نہیں ہو سکی جو انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلا کر آزادی اور مساوات کی منزل سے ہمکنار کر دے۔ ان طاقتوں نے بالآخر ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار کو سرفراز کر دینے کا موقع فراہم کر دیا، انہیں اطمینان ہو گیا تھا مگر کہانی ختم نہیں شروع ہوئی تھی۔
5فروری 2018ء کی شام ذوالفقار علی بھٹو کے نظریات کی صدائے بازگشت نے وطن کی نیلگوں فضائوں کو پیپلز پارٹی کی آشائوں سے سرشار کر دیا۔
موچی دروازہ لاہور کے جلسہ عام میں پارٹی کے شریک چیئرپرسن اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کا خطاب پارٹی کی اسی صدائے بازگشت کی لفظی تصویر تھی جس کے خونیں رنگوں نے انسانیت کا سینہ چاک کر رکھا ہے۔ وہ زخم شاید رفو ہو بھی نہیں سکتے، آج 24برس بعد بھی نہیں جب موچی دروازے میں بھٹو کی تیسری نسل کے نگہبان کی نظریاتی للکار نے قومی سیاست میں پیپلز پارٹی کی جوہری واپسی کی تصدیق کر دی تھی۔ آصف علی زرداری کی تلخ نوائی غالباً انہی خونیں رنگوں سے متشکل ہوئی!

تازہ ترین