• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹس میں بڑھک بازی تک محدود نہیں ہے\۔ان کی انتظامیہ کے باقی کلیدی اہلکار بھی ان کے ’’امریکہ کو عظیم تر بناؤ‘‘ کے نعرے پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کے ناقدین کے حلقوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ ٹرمپ امریکہ کو عظیم تر نہیں ’’سفیدتر‘‘ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ داخلی طور پر دوسری جنگ عظیم اور بالخصوص ساٹھ کی دہائی کے بعد ہونے والی روشن خیال اور انسان دوست تبدیلیوں کی تنسیخ سے ایسا امریکہ بنانا چاہتے ہیں جس میں سفید فام نسل کی برتری واضح طور پر قائم رہے۔ عالمی سطح پر وہ امریکی فوجی طاقت کے اضافے سے دنیا کو خوفزدہ کرکے من مانی کا سماں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ امریکہ کی دوسری جنگ عظیم کے بعد بننے والی غالب سامراجی پوزیشن کو واپس لا سکتے ہیں یاوہ اب ابھرتی ہوئی چینی طاقت کی وجہ سے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے؟
کچھ عرصہ پیشتر امریکہ کے وزیر دفاع جم میٹس نے امریکہ کی نئی عالمی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب امریکہ کے سب سے بڑے دو دشمن چین اور روس ہیں۔ انہوں نے ثانوی دشمنوں میں ایران اور شمالی کوریا کو بھی شامل کیا لیکن اولین حیثیت چین اور روس کو دی۔ ویسے تو چین کے ساتھ امریکی مقابلے کی تیاریاں بہت دیر پہلے سے ہو رہی تھیں لیکن اب اعلانیہ اس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی طرف حکمت عملی اپنائی جا رہی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ چین کو ویسے ہی نیچا دکھانا چاہتے ہیں جیسے سرد جنگ میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھیرا گیا۔ لیکن عنوان بتاتے ہیں کہ امریکہ کی حالیہ کوششوں کے کامیاب ہونے کے کم امکانات ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ واحد ملک تھا جس کے پاس وافر سرمایہ موجود تھا اور وہ اس کے زور پر اپنی سامراجی حکمت عملی نافذ کرنے کے قابل تھا۔ امریکہ نے دوسری جنگ عظیم میں برباد ہونے والے یورپ کو مارشل فنڈ اور دوسری سرمایہ کاری سے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔ اپنے سابقہ حریفوں، جرمنی اور جاپان کی صنعت کی تعمیر نو کی لیکن ان ملکوں میں اپنے فوجی اڈے بھی قائم کر دئیے تاکہ ان کی مستقبل کی ممکنہ جنگ جوئی کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیا جائے۔ تیسری دنیا کے غریب ممالک میں سرمایے کے زور پر غلبہ قائم کیا گیا اور سوشلزم کو روکنے کے نام پر ان ملکوں میں ڈکٹیٹروں پر انحصار کیا گیا۔ اسی طرح نیٹو جیسے معاہدوں کی مدد سے سوویت یونین کو اپنے زیادہ تر وسائل دفاع پر صرف کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ یہ حکمت عملی سرد جنگ کے زمانے میں جاری رہی جب تک کہ سوویت یونین کا شیرازہ نہیں بکھر گیا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نوے کی دہائی سے لیکر 2016 ء تک مختلف امریکی صدور نے گلوبلائزیشن کے دور میں ایسی حکمت عملی اپنائی کہ امریکہ بالواسطہ سپر پاور کا کردار ادا کرے۔
اگر پیچھے مڑ کر دیکھیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ سوویت یونین اپنے حجم اور دفاعی استطاعت کے لحاظ سے سپر پاور تھا لیکن وہ صنعتی میدان میں امریکہ اور یورپ سے بہت پیچھے تھا۔ سوویت یونین کی معیشت اتنا وافر سرمایہ پیدا نہیں کرتی تھی جس سے وہ دوسرے ملکوں کی معیشت پر امریکہ اور یورپ کی طرح غالب آسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ سوویت یونین کے عالمی اتحادی اس سے دیرپا تعلق قائم کرنے پر مجبور نہیں تھے۔ پھر رونلڈ ریگن کے زمانے میں روس کو دفاعی اخراجات کی دوڑ میں الجھا دیاگیا۔ سوویت یونین کی معیشت اندر سے کھوکھلی ہو چکی تھی اور وہ امریکہ کے ساتھ اسلحے کی دوڑ میں زیادہ دیر تک چل نہ پائی اور سوویت یونین کی شکست و ریخت ناگزیر ہو گئی۔
چین کئی پہلوئوں سے روس سے مختلف ہے۔ اول تو یہ کہ چین سوویت یونین کی طرح مختلف قومیتوں کے اکٹھ سے وجود میں نہیں آیا۔چند چھوٹے چھوٹے متنازع علاقوںکو چھوڑ کر چین ایک اکائی ہے ۔ دوم روس کی نسبت چین کی معیشت وافر مقدار میں سرمایہ پیدا کر رہی ہے۔ خود امریکہ پر چین کا قرضہ ایک کھرب ڈالر سے زیادہ ہے۔ چین وافر سرمایہ مختلف ملکوں میں لگا رہا ہے اور ان ملکوں کا چین پر انحصار دن بدن بڑھ رہا ہے۔ یعنی کہ چین دوسرے ملکوں میں اسی طرح اپنی جڑیں پھیلا رہا ہے جس طرح امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد کیا تھا۔ اس پہلو سے دیکھیں تو چین خاموشی کے ساتھ امریکہ کے خلاف اپنا بلاک مضبوط بنانے کی کوششوں میں خاصا کامیاب نظر آرہاہے۔ اس لئے اگر چین اسی شرح سے ترقی کرتا رہا اور اس کا سیاسی استحکام بھی قائم رہا تو امریکہ اس کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہوگا۔
چین کے وافر سرمایے کے مقابلے میں امریکہ بیس کھرب ڈالر کے خسارے میں ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں سے اس خسارے میں مزید اضافہ ہوگا۔ امریکہ کی یہ صورت حال اس کی جنگ عظیم دوم کے بعد کی حیثیت سے متضاد ہے کیونکہ تب امریکہ کے پاس وافر سرمایہ تھا اور باقی دنیا دو بڑی جنگوں کی وجہ سے تباہ حال تھی۔ اب صدر ٹرمپ امریکہ کو ستر پچھتر پہلے والا ملک بنانے کا خواب تو دیکھ سکتے ہیں لیکن وہ اس کو حقیقت میں نہیں بدل سکتے۔ اب وہ امریکہ کے اندر بھی وہ زمانہ واپس نہیں لا سکتے جو پچھلی صدی کی ساٹھ ویں دہائی تک تھا، جس میں کالے امریکیوں کو برابر کے حقوق حاصل نہیں تھے۔ اب کالے امریکیوں کو دوبارہ غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ بلکہ دنیا بھر اور بالخصوص ہسپانوی نسل کے لوگوں کی امیگریشن کے بعد امریکہ میں اقلیتوں کی تعداد 37 فیصد کے قریب ہو چکی ہے۔ اگر اقلیتوں کی تعداد میں اسی شرح سے اضافہ ہوتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب سفید فام خود اقلیت بن جائیں گے اور صدر ٹرمپ کے امریکہ کو ’’سفید تر‘‘ بنانے کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ اسی طرح عالمی سطح پر بھی امریکہ بیسویں صدی جیسی بر تر سپر پاور نہیں رہ سکتا۔ اگر امریکہ محض فوجی طاقت کے بل بوتے پر غالب آنا چاہتا ہے تو اس کا حال روس جیسا ہوگا جو دفاعی اعتبار سے تو سپر پاور تھا لیکن معاشی اعتبار سے مضبوط نہیں تھا۔ بیس کھرب ڈالر کا مقروض امریکہ نئے بموں اور میزائلوں سے دنیا کا ڈان نہیں بن سکتا۔ امریکہ کی موجودہ صورت حال کے سلسلے میں شہزاد احمد کا ایک شعر یاد آرہا ہے:
جو شجر سوکھ گیا ہے ، وہ ہرا کیسے ہو
میں پیمبر تو نہیں میرا کہا کیسے ہو

تازہ ترین