• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یورپی ممالک میں صوبہ پنجاب کے شہروں اور دیہات سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ،ہم نے سُنا تھا کہ جیسا دیس ویسا بھیس ہونا چاہئے لیکن اس کے بر عکس پرائے دیس میں ہمارا بھیس اپنا ذاتی ہوتا ہے ،کاٹن کی ’’ مایا ‘‘ لگی شلوار قمیض، پاؤں میں جوگر ، سرپر سندھی ٹوپی ، کندھوں پر سندھی شال ، سردیوں میں گرم جیکٹ کی جگہ ’’ دُھسہ ‘‘ کبھی ہوائی چپل اور کبھی ’’ چُوں چُوں ‘‘ کرتی ’’ کھیڑی ‘‘ جوتی بھی مقامی لوگوںکی توجہ حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے ۔ہمارے فیشن یورپی سڑکوں پر عموماً دیکھنے کو ملتے ہیں ، ایسا ہونا بھی چاہئے کیونکہ ہمیں اپنی تہذیب نہیں بُھولنی ، مگر صرف لباس اور جوتوں تک ، جبکہ دین اور ہمارے معاشرے کے مثبت کام اور رسم و رواج نہ جانے ہم یورپ میں داخل ہوتے وقت ایئر پورٹ پر ہی کیوں چھوڑ آتے ہیں ؟ہمارا دین توہمیں بھائی چارے اور محبت کا درس دیتا ہے ، ایک دوسرے کے کام آنا ہماری تعلیم میں شامل ہے ،بے سہاروں کا سہارا بننا ہمارے لئے فرمان ہے ،چغلی وغیبت سے بچنا ،ایک دوسرے کی ٹانگ نہ کھینچنا ،کسی کی کامیابی سے خوش ہونا ، دوسرے مذاہب کا احترام ، مقامی قوانین کی پابندی ، احسن کردار ، ایماندار سوچ ، محنت ، لگن اور ہمسائیگی کے حقوق پورے کرنے جیسے فرائض ہم بھول چکے ہیں۔پاکستان میں تو آج کل جو فقرے اور جملے لبِ عام ہیں اُن میں ’’ مجھے کیوں نکالا ؟ مجھے کیوں پھنسایا ؟ سڑکوں پر گھسیٹوں گا ، ایک ایک پائی وصول ہو گی ، انصاف کہاں گیا ؟ میرا نام تبدیل کر دینا مشہور ہیں ، اِسی طرح دیارِ غیر میں جو فقرے اور جملے عام ہیں یا یہ کہہ لیں جنہیں یہاں ہمارے معاشرے کا ستون سمجھا جاتا ہے وہ ہیں ، وہ گروپ ہمارا نہیں ، تم وہاں کیوں گئے تھے ؟ اگر فلاں وہاں آیا تو میں نہیں آؤنگا ، اُسے بلانا ہے تو مجھے مت بلاؤ ،میں نے تمہیں اُن کے ساتھ دیکھا تھا ، تمہاری تصویر دوسرے گروپ کے ساتھ کیوں بنی ؟ تارکین وطن پاکستانی دوسرے ممالک میں اِنہی فقروںاور جملوں کے گرد اپنی زندگی کا پہیہ گھما رہے ہیں ۔بھائی چارے اور ذہنی ہم آہنگی کے اِسی فقدان کی وجہ سے دیار ِ غیر میں پاکستانی کمیونٹی کی زیادہ تعداد کامیاب زندگی کا مزہ نہیں لو ٹ سکی بلکہ وہ آپس میں تقسیم در تقسیم ہو رہی ہے۔یورپی ممالک میں مقیم پاکستانی عجیب و غریب طبیعت کے مالک ثابت ہوئے ہیں ،ایسوسی ایشنز اور فلاح و بہبود کی فیڈریشنز بنا رکھی ہیں، لیکن کسی کا کوئی دفتر نہیں کہ جہاں جا کر کسی کی فلاح یا بہبودکی بات کی جا سکے ،اگر فیڈریشن یا ایسوسی ایشن کے کسی عہدیدار سے ملنا ہو تو دیکھنا پڑتا ہے کہ آج کسی دُکان کا افتتاح تو نہیں ؟ ختم شریف ، پروگرام ، شادی ، منگنی ، ایئر پورٹ ، دعوت ، ریسٹورنٹ اور کسی ہال میں میٹنگز بھی ایسی جگہیں ہیں جہاںعہدیداران سے ملاقات ہو سکتی ہے ، فلاح و بہبود کے کام کی بجائے تصاویر کھنچوانا ، پہلی لائن میں کھڑا ہونا ، اسٹیج پر بیٹھنا ، تقریر کرنا اور میزبانی کرنے میں پہل اِن عہدیداران کا قومی کھیل بن چکاہے ،یورپی ممالک میں انہوں نے ایک نیا فرقہ بھی ایجاد کر لیا ہے جسے ’’ فرقہ تصویریہ‘‘کا نام دیا گیا ہے ۔اِس فرقے کو ماننے والوں کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ اپنے بڑے سے بڑے دُشمن کے ساتھ بلا حیل و حجت تصویر بنوا لیں گے بے شک بعد میں اُس پر بندوق تان لیںاور کہیں کہ تم تو میرے دُشمن ہو ۔بہر حال نفرتوں اور تفرقے کے اِس ٹھہرے ہوئے پانی میں کاتالان کرکٹ فیڈریشن نے 40 پلس کرکٹ ٹورنامنٹ کے نام کا پہلا پتھر مارا تاکہ اُس سے بننے والی بھائی چارے کی لہریں اپنائیت کے کنارے کو جا ٹکرائیں اور محبت و چاشنی کی نئی فضا قائم ہو ۔بیسٹ آف تھری کے عنوان سے چالیس سال سے زیادہ عمر کے کھلاڑیوں کے مابین ٹی ٹونٹی میچ رکھے گئے تاکہ وہ تین گھنٹے کہ جب تک میچ ہو تمام کھلاڑی آپس کے تنازعات بھول کر گرائونڈ کے اندر نو بال ، وائیڈ بال ، ناٹ آئوٹ ، آئوٹ ،چوکوں اور چھکوں کی بات کریں گے تب اُن کا دھیان اختلافات کی طرف نہیں بلکہ جیت یا ہار کی جانب ہو گا ،آئوٹ کرنے کے بعد ایک دوسرے کو گلے لگا کر خوشی کا اظہار ، جپھیاں ہوں گی ، داد دی جائے گی ، اچھے شاٹ پر تالیوں کی آواز گونجے گی ، یہ سب سوچ کر کاتالان کرکٹ فیڈریشن نے فرض نبھا تے ہوئے زندگی کے مختلف شعبوں سے افراد کا انتخاب کیا ، اِن شعبوں میں سماجی ، سیاسی ، مذہبی اور صحافتی حلقوں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی شامل کئے تاکہ سب ایک پلیٹ فارم پر کچھ دیر کیلئے اکٹھے ہو جائیں ، دو نوں اطراف کے کھلاڑیوں کے لکی یا پسندیدہ نمبروں اور نام سے آویزاں یونیفارمزبنوائے گئے ، گرائونڈ کا کرایہ ، گرائونڈ تک کھلاڑیوں کو پہنچانے کی ذمہ داری ، ٹرافی کی رُونمائی ، یونیفارم تقسیم کی تقریب کا اہتمام ، کرکٹ فیڈریشن نے یہ سب کیا لیکن کچھ حاسدین اور اِس کام سے ناخوش افراد سوشل میڈیا پرفلسفہ جھاڑ رہے ہیں کہ اِس کام میں کرکٹ فیڈریشن کا یقیناً کوئی فائدہ ہے ، دال میں کچھ کالا ہے۔ سوشل میڈیا پر کاتالان کرکٹ فیڈریشن کی اِس مثبت اور مخلصانہ کوشش کے خلاف لکھنے والے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں لگتا تھا کہ کچھ خفیہ ہاتھ عمران خان کو وزیر اعظم پاکستان بنانا چاہتے تھے لیکن جس طرح سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی مریم کے جلسوں میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آ رہا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ جیسے سب اِدارے مل کرایک خاص سازش کے تحت مسلم لیگ ن کو مضبوط بنا رہے ہیں اور بیچارے پاکستانی عوام اِس سازش سے بے خبر ہیں ۔آگے جا کر لکھتے ہیں کہ اِسی طرح ہمیں لگ رہا ہے کہ جس عمر میں لوگ ’’ گھٹنے کے درد ‘‘ کی دوا لینے یا اپنے لئے قبروں کا ڈیزائن دیکھنے کا مرحلہ طے کرتے ہیں اُس وقت اُنہیں گرائونڈز میں لے جا کر کرکٹ کھیلانا کسی سازش سے کم نہیں ۔خیر سوشل میڈیا پر کوئی کچھ بھی لکھ سکتا ہے ، کوئی فلاسفر بنے یا پیش گوئی کرنے والا، کوئی پیر ہو یا مرید بنے ، سیاسی جماعتوں کے قائدین کے خلاف لکھنے والا ہو یا حق میں، کسی کی تعلیم دیکھی جا سکتی ہے اور نہ ہی پوچھا جا سکتا ہے کہ آپ نے فلاسفی کی ڈگری کہاں سے حاصل کی تھی ؟ کچھ دن پہلے میں نے یورپی دورے پر آئے پاکستانی وفاقی وزیر سے پوچھا کہ کوئی بھی حکومت تارکین وطن کے مسائل کے حل کےلئے واضح پالیسی مرتب کیوں نہیں کرتی ؟ تو موصوف نے جھٹ سے جواب دیا ، حکومتیںپاکستان میں رہنے والوں کے مسائل حل کریںیا تارکین وطن پاکستانیوں کے ؟ میں نے کہا کہ جناب عالی تارکین وطن پاکستانی کروڑوں ڈالرز کا سالانہ زرِ مبادلہ اپنے وطن بھیجتے ہیں جو قومی خزانے کوسیراب کرتا ہے جبکہ پاکستان میں رہنے والے پاکستانی تو ٹیکس تک نہیں دیتے کہ کہیں اُن کی دی گئی رقم قومی خزانے کے بڑھاوے کا باعث نہ بن جائے ۔بس پھر کیا تھامیری اِس بات کے بعد خاموشی چھا گئی اور وزیر صاحب میرے اور میں اُن کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش میں لگ گیا ۔

تازہ ترین