• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

داسنگ آزادی دا؟
جوانِ رعنا قتل ہو رہے ہیں ۔
ہمارے گھر جل رہے ہیں ۔
پختون نیست و نابود ہو رہے ہیں؟
یہ کیسی آزادی ہے ؟
اسلام آباد دھرنے میں پشتو کے نامور گلوکار شوکت عزیز کی دردناک آوازگونجتی ہے تو وہاں بیٹھے نوجوانوں کی آنکھوں میں نقیب اللہ محسود کی موت اور وزیرستان کی بربادی کے مناظر گردش کرنے لگتے ہیں۔ راولپنڈی، آبپارہ یا اسلام آباد کے بااختیار لوگ شاید کسی مغالطے میں ہیں ،وہ اس دھرنے کو ایک روایتی احتجاج سمجھ رہے ہیں جو ان کے خیال میں نمائشی نوعیت کے چند اقدامات اور رسمی یقین دہانیوں پر مشتمل اعلانات سے جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گامگر صورتحال اس سے کہیں زیادہ سنگین اور گھمبیرہے۔نقیب اللہ محسود کا ناحق قتل تو اونٹ کی کمرپر وہ آخری تنکا ثابت ہوا جس کے بعد ضبط کے تمام بندھن ٹوٹ گئے مگر پشتونوں اور بالخصوص قبائلی علاقوں کے مکینوں میں مسلسل جبر کے خلاف لاوا کئی سال سے دہک رہا تھااور اب ہم آتش فشاں کے دہانے پر کھڑے ہیں۔نقیب اللہ محسود ہو یا رائو انوار ،یہ دو افراد نہیں ہیں ،دو کردار ہیں جو مظلوم اور ظالم کی نمائندگی کرتے ہیں جس طرح تاریک راہوں میں مارے جا رہے نقیب اللہ محسود بیشمار ہیں اسی طرح جبرِمسلسل کے قائل رائو انوار بھی ان گنت ہیں۔میں نے دھرنے میں بیٹھے کئی پشتون نوجوانوںکا ذہن پڑھنے کی کوشش کی کہ آیا وہ بھی سادہ لوح عوام کی طرح یہی سمجھتے ہیں کہ رائو انوارکا سرپرست محض کوئی سیاستدان یا پھر کوئی سرمایہ دارہے اس لئے اسے قانون کی گرفت میں نہیں لایا جا سکا؟ حیرت انگیز طور پر یہ نوجوان یکسو دکھائی دیئے کہ رائو انوار کے رسہ گیر سابق آمر اور ان کے ساتھی ہیں ۔ رائو انواروں کی پرورش کرنے والوںکی سوچ کو ایک جملےکے کوزے میں بند کرنا مقصودہو تو یوں سمجھئے ’’بنائو، استعمال کرو اور پھینک دو ‘‘۔ دو قسم کے رائو ا نوار پائے جاتے ہیں یہاں ،ایک وہ جولوگوں کے ہاتھوں میں بندوق تھماتے ہیں اور انہیں تذویراتی گہرائی کی احمقانہ پالیسی کے تحت دہشتگرد بناتے ہیں مگرجب یہ پَر پرزے نکالنے لگتے ہیں تو دوسری قسم کے رائو انوار انہیں ٹھکانے لگا کر ’’انکائونٹر اسپیشلسٹ ‘‘ بن جاتے ہیں۔محاورہ تو یہ ہے کہ گیہوںکے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے مگر یہاں کمال مہارت سے گندم کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر لیا جاتا ہے ’’اچھی گندم ‘‘ اور ’’بُری گندم‘‘۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ گندم کے ساتھ پسے جا رہے گھن سے متعلق کوئی تردد نہیں کیا جاتا اور جو سامنے آئے بے رحمی سے کچل دیا جاتا ہے۔
وزیرستان کا نام آتے ہی علاقہ غیر کی ایک ایسی بھیانک شبیہ ذہن میں ابھرتی ہے جہاں بندوق بردار طالبا ن کے ڈیرے ہیں یا پھر کوئی ایسی عجیب و غریب مخلوق رہتی ہے جو انتقام کی رسیا ہے اور جنگ و جدل اس کا بہترین مشغلہ ہے ۔نقیب اللہ محسود تلبیس اطلاعات کے زور پر بنائے گئے اس تاثر کی نفی کرنا چاہتا تھا اور اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس کے ’’اتنڑ‘‘(پختونوں کا روایتی رقص)میں مخالفین کے پروپیگنڈے سے زیادہ ابلاغ کی طاقت ہے۔نقیب اللہ محسود کے لئے انصاف کی تحریک چلاتے نوجوانوں کے گیسوئے دراز ہوں یا درد کے اظہار کے لئے مستعار لئے گئے سازو آواز اور جدید انداز،معلوم ہوتا ہے وزیرستان کا نوجوان اس طالبانی سوچ اور فکر سے کوسوں دور ہے جسے یہاں مخصوص ایجنڈے کے تحت فروغ دیا گیا تھا۔اور سوال تو یہ بھی ہے کہ وہ سابق آمر اور ان کے ساتھی جنہوں نے ڈالر کمانے کے لئے یہاں طالبان کو پنپنے دیا ،اس سوچ کی آبیاری کی ،ان بندوق برداروں کی سرپرستی کی ،وہ اور ان کی اولادیں تو اب بھی پرآسائش زندگیاں گزار رہی ہیں مگر پشتونوں کی زندگیاں عذاب بنا دی گئی ہیں۔یہ لوگ قربانیاں دینے سے نہیں گھبراتے ۔پرویزمشرف کے دور میں آپریشن المیزان کا آغاز ہوا تو ان سے حب الوطنی کا خراج مانگا گیا ۔2008ء میں آپریشن زلزلہ آیا تو اس کا نزلہ بھی نقل مکانی کی صورت میں عام افراد پر گرایا گیا۔آپریشن راہ راست ،آپریشن راہ ِنجات، آپریشن ضربِ عضب اورپھر آپریشن ردالفساد شروع ہوا تو ہر بار ان کے گھر جلے اور انہیں لٹے پٹے قافلوں کی صورت میں ہجرت کرنا پڑی۔’’وطن کارڈ‘‘ کے نام پر ایک بار پھر حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹے گئے۔ لیکن اس تمام تگ و تاز کے بعد بھی یہ بات پورے وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ جس سانپ کو مارنے کے لئے پورے گائوں کو آگ لگا دی گئی اور سب کچھ بھسم کر دیا گیا کیا ہمیں اس سے نجات مل گئی؟مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے نعرے لگے ،سندھ سے سندھو دیس بنانے کی باتیں ہوئیں ،بلوچستان میں گریٹر بلوچستان کے تانے بانے برآمد ہوئے مگر وزیرستان سے تو آج تک کبھی پاکستان سے علیحدگی کی کوئی سرگوشی تک سنائی نہیں دی مگر پھر بھی ان کی حب الوطنی مبہم اور وفاداری مشکوک سمجھی جاتی ہے تو کیوں ؟سب سے زیادہ مہلک فوجی آپریشن وہاں ہوئے تو اس کی کیا توجیہہ پیش کی جا سکتی ہے؟
قبائلی روایات کے مطابق جب کوئی جرم سرزد ہوتا ہے ،کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی ہے توپوری قوم مل بیٹھتی ہے ،سب ایکا کرلیتے ہیں اورمظلوم کا ساتھ دیتے ہوئے اس ظالم کے خلاف لشکر کشی کرتے ہیں ،اس کا گھر مسمار کر دیتے ہیں ۔ انصاف کی فراہمی کے لئے اس مشترکہ جدوجہد یا یلغار کو پشتو میں ’’چیغہ ‘‘ کہتے ہیں۔ چیغہ کی بہترین مثال بدھ کے روز ڈیرہ اسماعیل خان میں پیش آنے والا وہ واقعہ ہے جب حالات کے ستائے عام افراد نے وہاں موجود’’اچھے طالبان‘‘ کے دفاتر پر دھاوا بول دیا اور انہیں آگ لگا دی۔اسلام آباد میں بیٹھے پشتونوں کے اجتماع کو ’’چیغہ ‘‘ تو قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ لوگ پرامن ہیں ،غیر مسلح ہیں ،محض اپنے حقوق کا تقاضا کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں ہاں البتہ اسے ’’اخری سیرا‘‘ یا ’’اخری ژاغ‘‘(یعنی آخری چیخ یا آخری پُکار) ضرور کہا جا سکتا ہے۔ہمارے ارباب اقتدار کسی مغالطے کا شکار ہیں ،وہ مشران و ملکان کے ذریعے اس دھرنے کو ختم کروانے کی کوشش کرر ہے ہیں اور قبائلی مشران نے حکومتی لالی پوپ میںآکر کئی بار یہ دھرنا ختم کروانے کی کوشش بھی کی مگر میرے خیال میں ریت پر پانی چھڑکنے سے کچھ نہیں ہو گا ۔یہ دھرنا ان غیر منظم مگر دھن کے پکے نوجوانوں کا مرہون منت ہے جنہوں نے سوشل میڈیا کو بروئے کار لاتے ہوئے پہلے ایم ٹی ایم (محسود تحفظ موومنٹ )بنائی اور پھر اسے پی ٹی ایم (یعنی پختون تحفظ موومنٹ )کا نام دیدیا ۔اسی حتمی اور آخری چیخ وپُکار کو دبانا ممکن نہیں رہا ،اگر ایسی کوئی کوشش کی گئی تو یہ ’’سیرا‘‘ کی مہم ’’چیغہ ‘‘ جیسی مہم جوئی میں بدل سکتی ہے۔ ابھی تو شاید رائوانوار نامی ایک مہرے کی گرفتاری پر دہکے ہوئے جذبات سرد ہو جائیں مگر تاخیر کی گئی تو پھر دبئی بھیجے گئے جہاز میں رائو انوار ہی نہیں ،پرویز مشرف نامی بھگوڑے کو پکڑ کر لانے کا مطالبہ بھی زور پکڑ سکتا ہے اور چارج شیٹ میں کئی پردہ نشیں ’’رائو انواروں ‘‘ کے نام بھی آسکتے ہیں۔

تازہ ترین