• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ہو کیا رہا ہے؟
وزیراعظم سے ایک اینکر نے کہا آپ ہمارے پروگرام ’’یہ ہو کیا رہا ہے‘‘ میں انٹرویو دے رہے ہیں، وزیراعظم نے کہا میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟ ہمارے پاس تو کوئی ٹی وی پروگرام نہیں ورنہ ہم بھی یہ پروگرام چلاتے کہ ’’یہ رو کیوں رہا ہے؟‘‘یوں لگتا ہے کہ جیسے ہماری اشرافیہ بشمول سیاستدان حکمران سب کو کسی حاذق حکیم نے ایسا جلاب پلا دیا ہے کہ سارا کچھ باہر آ گیا ہے، اور چمن میں ہر طرف بدبو سی پھیل گئی ہے، کوئی اگربتی جلائو کہ ناک جلنے لگا! میڈیا پر ہر لیڈر کے ساتھ اینکر جو کرتا ہے وہ اس قدر بڑی ’’عزت افزائی‘‘ ہوتی ہے کہ اس کے باوجود لیڈران کرام جوق در جوق میڈیا کا رخ کرتے ہیں، اللہ نے میڈیا کو کیسی عزت دی ہے کہ چور ہوں، ساد ہوں سب اس کے کٹہرے میں کھڑا ہونا باعث عزت سمجھتے ہیں، گویا ریاست ان دنوں ایک ہی ستون پر کھڑی ہے، یہ ہمارے سیاسی طرز تعمیر کا کمال ہے، ہر سیاسی جماعت متحد بھی ہے اور منتشر بھی، ہر بندہ پریشان بھی ہے خوش بھی، ہر پاکستانی چالاک بھی ہے سادہ دل بھی، یہاں تک کہ ہر دوشیزہ بھولی ہے مگر اتنی بھی بھولی نہیں ہر صحافی مولانا مظفر علی خان بھی ہے اور کچھ بھی نہیں۔ ایماندار افسر، افسر بھی ہے دفتر میں بھی نہیں۔ ڈی این اے کا ذکر عام ہے، شاید ہمارا ڈی این اے ہماری دھرتی سے میچ نہیں کرتا مقصود و مطلوب دولت ہے اور طلب گار وہ بھی ہیں جو طلب گار معلوم نہیں ہوتے، بلکہ ان پر شک بھی نہیں گزرتا کہ اس نے بھی گنگا سے اچھی طرح منہ دھو لیا ہو گا۔ اگر ہم من حیث القوم مشکوک ہو چکے ہیں تو دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں شک کا فائدہ دے کر معاف فرما دے۔
جوتیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کہتے ہیں:زیادہ گالیاں دینے والا بڑا لیڈر بن جاتا ہے جبکہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے:گھٹیا زبان بولنے میں زرداری عمران سے آگے جا چکے، اور حیرانی ہے کہ وہ اپنا پینل بھول گئے، غالب نے تو ہونٹوں کی شیرینی کی بات کی مگر ہم نے تو فلموں ڈراموں میں ہیرو کو جوتیاں کھاتے اور بے مزا نہ ہوتے دیکھا شاید حقیقت میں بھی ایسا ہی ہوتا ہو، بہرصورت عرض کیا ہے؎
کتنے شیریں ہیں تیرے پائوں کہ ہیرو
جوتیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
ہمارے ہاں سیاست کی دنیا جب تک سیاست کا بازار نہیں بنی تھی ستھری سیاست ہوتی رہی، پھر دھرنا دور آیا، اور دھرنا اپنے ساتھ کنٹینر بھی لایا جس پر چڑھ کر دشنام بازی شروع ہوئی، ہر ایکشن کا ری ایکشن ہوتا ہے، دوسری جانب سے بھی اپنے پہلوان گالم گلوچ اکھاڑے میں اتارے گئے اور یوں سیاست کے بازار دشنام میں ایسا ہلڑ مچا کہ بالی وڈ کی فلمیں بھی شرما گئیں۔ زرداری کچھ بھی ہوں کبھی بام دشنام پر نہیں آئے تھے مگر اب وہ بھی اس میدان میں کود پڑے ہیں، رانا ثناء جو دشنام بازوں کے ریفری ہیں وہ اپنی ٹیم کو گول کر گئے، مگر ان کی ظاہری ہیبت ایسی ہے کہ انہیں کبھی دشنام طرازی کا سہارا نہیں لینا پڑا۔ وہ اس کے بغیر ہی بڑے لیڈر بن گئے، عوام بیچارے حیرت زدہ ہیں کہ یہ دشنام باز مرغے انہیں بھلا کیا دے سکیں گے، مگر وہ یہ سوچ رکھیں کہ ان سب نے ان کی عدالت سے انتخابات کے موقع پر فیصلہ لینے آنا ہے، کیونکہ گالیاں دے کر سیاست میں مقام بنانے والے عدلیہ کو نہیں عوامی عدالت کو پانچ سال میں ایک بار جج مانتے ہیں اس کے بعد عوام ان کے کٹہرے میں اور وہ حکومت کے ایوانوں میں۔
٭٭٭٭
دھند چھٹنے کو ہے!
....Oشیخ رشید30:؍ مارچ سے پہلے نواز شریف اور مریم نواز جیل میں ہوں گے۔
فارسی مقولہ ہے:’’قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید‘‘
(قلندر جو کہتا ہے دیکھ کر کہتا ہے)
....Oاحسن اقبال:پاک امریکہ تعلقات میں سرد مہری کا فائدہ دہشت گرد اٹھا ئیں گے۔
بلاشبہ آپ ن لیگ کے ’’ارسطو‘‘ ہیں ہر تیر عین نشانے پر!
....Oنظام الدین سیالوی:خفیہ طاقتیں پیر آف سیال شریف کو استعمال کر رہی ہیں،
انہیں پیر مانتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ استعمال ہو رہے ہیں،
....Oاچکزئی:آئی ایس آئی کے ایک افسر نے بلوچستان حکومت گرائی۔
اچکزئی صاحب اب اس حد تک نہ جائیں، ہماری فوج نے گرانا ہوتا تو بلوچستان حکومت ہی کیوں؟ فوج اپنا کام کر رہی ہے، آپ بھی اپنا کام کریں کسی کےلئے کام نہ کریں۔

تازہ ترین