• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معروف اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے قصور کی معصوم زینب کے مبینہ قاتل کے بارے میں کیے جانے والے انکشافات کے بعد صحافتی، حکومتی اور قانونی حلقوں میں نئی بحثیں شروع ہوگئی ہیں۔ حکومت اورآزاد پریس کو ایک دوسرے سے شکایات تو ہمیشہ رہی ہیں اور آئندہ بھی ہوتی رہیں گی لیکن پاکستان میں کئی صحافیوں اور صحافتی اداروں کو میڈیا سے وابستہ بعض اداروں اور افراد کی جانب سے ہی غیر پیشہ ورانہ طرزعمل اور بے بنیاد الزامات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ایک ہی شعبے سے وابستہ اداروں اور افراد کے درمیان پیشہ ورانہ مسابقت اور صحت مند مقابلہ آرائی دنیا میں ہر جگہ ہوتی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں شعبہ صحافت میں بھی یہ مسابقت موجود ہے۔
ہمارے ملک میں صحافت جب صرف پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات و رسائل تک محدود تھی تب اس کاروباری مسابقت اورباہمی مقابلہ آرائی کے انداز کچھ اور تھے۔ 2002ء میں صدر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے پاکستان میں نجی ٹیلی ویژن چینلز کی اجازت دئیے جانے کے کچھ عرصے بعد ہی تیزی سے پھیلنے والے الیکٹرانک میڈیا میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ میں کئی سماجی مسلّمات اور صحافتی اخلاقیات کو ہی نظرانداز کردیا گیا۔ پرائیویٹ ٹی وی چینل پر سب سے پہلے خبر دینے کی ریس میں کئی بار خبر کی باقاعدہ تصدیق نہیں کی گئی۔ پرنٹ میڈیا یعنی اخبار میں شائع ہونے سے پہلے خبرتصدیق اور ایڈیٹوریل نگرانی کے مراحل سے گزرتی ہے۔ پاکستان کے کئی پرائیویٹ ٹی وی چینلز پر خبر نشر ہونے سے پہلے ادارتی نگرانی اور تصدیق کا وہ نظام نہیں ہے جو اخبارات میں ہے۔ نجی ٹی وی چینلز پر یہ معاملہ صرف خبروں تک محدود نہیں۔ خبروں پر تبصروں اور تجزیوں کے پروگرامز بھی بے بنیاد خبروں اور غیر معتبر اطلاعات دینے کی وجہ سے سنسنی خیزی اور افواہوں کے فروغ کا ذریعہ بنے ہیں۔
چلئے۔۔۔۔! خبر کو تو فوری طور پر نشر کرنے کے لئے وقت کی کمی کو زیادہ ویری فکیشن نہ کرپانے کا ایک جواز بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن تبصروں اور تجزیوں کے پروگراموں میں اس قدر عجلت نہیں ہوتی۔ وہاں بھی کئی بار خواہشات کو خبر اور مفروضوں کو اطلاعات بناکر پیش کیا گیا۔ محض اپنا حلقۂ قارئین یا ناظرین بڑھانے کے لئے سنسنی خیز باتیں کرنا اورہیجان پھیلانا کسی طور مثبت صحافت نہیں۔ شائع یا نشر کرنے کے لئے کوئی خبر بناتے ہوئے اور اسے بیان کرتے ہوئے کسی واقعہ کا سچا ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس واقعے کو بیان کرنے کا انداز بھی سنسنی اور ہیجان سے مبرا ہونا چاہیے۔ صحافیوں اور صحافتی اداروں کو قارئین اور ناظرین کا فکری رہنما بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک بڑا منصب ہے۔ اس منصب کی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ ان ذمہ داریوں میں معاشرے میں مثبت اقدار کے فروغ کی کوششیں، اعلیٰ روایات کو استحکام دینا اور سماج کو انتشار سے بچانا بھی شامل ہے۔
قصور کی معصوم زینب کے انتہائی الم ناک قتل سے حکومت ، معاشرے اور صحافت کی کئی خامیاں اور نقائص بھی مزید واضح ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر شاہد مسعود کے انکشافات نے کئی اہلِ صحافت کو شدید فکر اور پریشانی میں بھی مبتلا کردیا ہے۔ فکر کا سبب بننے والے عوامل میں سرفہرست معاملہ صحافت کے اعتبار کا ہے۔ خبر دینے میں کسی بھی صحافی سے غلطی ہوسکتی ہے۔ اکثر اوقات کسی خبر کے جاری ہونے یا نہ جاری ہونے میں کسی جماعت، ادارے یا بارسوخ افراد کے وسیع مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ ایسے میں کسی خبر کے حوالے سے صحافی، اینکر یا صحافتی ادارے کو کسی نہ کسی شکل میں دباؤ کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ کبھی صحافی کو ٹریپ کرنے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے۔ معتبر صحافتی ادارے اور اچھی ساکھ کے حامل صحافی خبر دینے میں کوئی غلطی ہوجانے پر اپنی انا کے قیدی نہیں بن جاتے بلکہ پیشہ ورانہ تقاضوں کو فوقیت دیتے ہوئے غلطی مان کر معذرت کرلیتے ہیں۔
صحافی اور صحافتی اداروں کا بنیادی کام لوگوں تک اطلاعات کی فراہمی ہے۔ خبر تک رسائی، عوام تک اس کی فراہمی اور اظہار رائے کی آزادی کویونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس (1948)کے تحت بنیادی حقوق میں شامل کیا گیا ہے۔اظہارِ رائے کی آزادی ہو یا پریس کو دئیے گئے حقوق، یہ عالمی ڈیکلریشن کے ساتھ ساتھ ملکی آئین اور قوانین کے تابع بھی ہیں۔
پاکستان میں صحافت کئی دہائیوں تک حکومت کی جانب سے کڑی پابندیوں، نیوز پرنٹ اور قومی خزانے کے ذریعہ سرکاری اشتہارات پر حکومتی اختیار کی وجہ سے شدید دباؤ میں رہی ہے۔ جنرل ایوب کے دور میں نافذ ہونے والے بدنام زمانہ سیاہ قانون پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس 1960کے تحت پاکستان میں صحافت کی آزادی برقرار رکھنا ایک بہت بڑا جہاد تھا۔ پاکستانی اخبارات نے حکومتی جبر اور پابندیوں کا پامردی اور استقلال کے ساتھ سامنا کیا۔ صحافی ، ایڈیٹرز اور مالکان قید و بند کی پابندیوں، اخبارات کے لئے سرکاری اشتہارات کی بار ہا بندشیں، بعض اخبارات ڈیکلریشن کی معطلی یا منسوخی سمیت حکومت کی جانب سے کئی مصائب کو برداشت کرتے رہے لیکن آزاد پریس کے لئے اپنی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹے۔ صحافیوں اور صحافتی اداروں کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں یہ سیاہ قانون بالآخر 1988میں رجسٹریشن آف پرنٹنگ پریسز اینڈ پبلیکیشن R.P.P.O سے تبدیل کردیا گیا۔ اس نئے قانون سے اخبارات کے اجرا اور اشاعت پر حکومت کی جانب سے کئی پابندیوں کا خاتمہ تو ہوا لیکن فوجی حکمران ہوں یا عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومتیں پریس کو بعد میں بھی حکومت کی ناراضی اور کئی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کٹھن حالات میں کئی اخبارات صحافیوں کی تربیت، فنی مہارت میں اضافے پر بہت زیادہ توجہ دیتے رہے۔ تاہم تیز رفتاری کے ساتھ پھیلنے والے الیکٹرانک میڈیا میں ذمہ دارانہ رویوں کے ساتھ پیشہ ورانہ تربیت پر اخبارات جیسی توجہ نہ دی جاسکی۔
ڈاکٹر شاہد مسعود کے انکشافات پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک کیس میں میڈیا سے وابستہ افراد کو بڑی تعداد میں عدالت کی معاونت کے لئے بلایا گیا۔ دوران سماعت ڈاکٹر شاہد مسعود اپنے انکشافات کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہ کرسکے۔ ان انکشافات یا الزامات کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کے ڈی جی بشیر میمن، جوائنٹ ڈائریکٹر آئی بی انور علی، اے آئی جی اسلام آباد پولیس عصمت اللہ جونیجو پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا دی ہے۔ لوگ اس کمیٹی کی رپورٹ کے منتظر ہیں۔
اگر ڈاکٹر شاہد مسعود کے الزامات صحیح ہوئے تو ہمارے معاشرے کا ایک بہت منفی اور بھیانک رخ سامنے آئے گا جس کی اصلاح کے لئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہوگی۔اگر ڈاکٹر صاحب کے الزامات غلط ہوئے تو عوام کا صحافت پر اعتماد مجروح ہوگا۔بہرحال میڈیا کی آزادی برقرار رکھتے ہوئے اس کے مزید ذمہ دارانہ کردار کے لئے اے پی این ایس، سی پی این ای، پی بی اے، حکومت اور ریاست کے متعلقہ اداروں کو مل کر ایک قابل عمل لائحہ عمل تجویز کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
منو بھائی،( منیر احمد قریشی)
اردو ادب کے ایک بہت روشن ستارے منو بھائی کا اصل نام منیر احمد قریشی بہت کم لوگ جانتے تھے۔ انہیں یہ لقب ایک بہت بڑی ہستی احمد ندیم قاسمی نے دیا تھا۔ منو بھائی ایک بڑے ادیب، ڈراما نگار، کالم نویس ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی خدمت کرتے رہنے میں خوش رہنے والے ایک بہت اچھے انسان تھے۔ 19جنوری کو منو بھائی کے انتقال سے اردو ادب ایک بڑے نام اور پاکستانی معاشرہ ایک اچھے انسان سے محروم ہوگیا۔
سید حمزہ علی قادری
صوفی، عالم دین، مقرر سید حمزہ علی قادری 24جنوری کوکراچی میں انتقال کر گئے۔ موجودہ دور میں ایسی ہستیاں کم کم ہی رہ گئی ہیں۔ علامہ کے انتقال سے ان کے اہل خانہ و احباب ہی نہیں ان کے علم و فضل سے استفادہ کرنے والے بے شمار لوگ اداس ہیں۔ ایسی ہستیوں کا خلالئےمدتوں پُر نہیں ہوتا۔

تازہ ترین