• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس حقیقت کا متعدد مرتبہ اعادہ کیا جاچکا ہے کہ وطن عزیز جن اندرونی و بیرونی چیلنجز سے دوچار ہے اس امر کے متقاضی ہیں کہ قومی قیادت تمام تر زمینی حقائق اور عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے پیش نظر اپنی ترجیحات و ضروریات کا تعین کرے اور ان کی روشنی میں ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت ایک ایسی بے لچک حکمت عملی طے کی جائے جو ان خدشات و خطرات کی راہ میں سد سکندری ثابت ہو جو پاکستان کو درپیش ہیں یا لاحق ہوسکتے ہیں۔ سردست پاکستان کی ترجیحات و ضروریات کا بنظر عمیق جائزہ لیا جائے تو وطن عزیز کی اولین ترجیح ملکی سالمیت اور قومی مفاد ہےجس پر کسی بھی نوعیت کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی سامنے آئی۔ پاکستان نے ایسا مضبوط موقف اپنایا کہ امریکہ کی منہ زوری اور دھمکیاں کسی کام نہ آسکیں اور وہ بتدریج اپنی شعلہ نوائی سے باز آکر پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی جنگ لڑنے پر آمادہ ہوا۔ اس وقت قومی قیادت کا ہم آہنگ ہونا قابل داد تھا کہ یہ ملکی سالمیت اور قومی وقار کا معاملہ تھا۔ پاکستان کو درپیش خطرات پوری قوم پر عیاں ہیں۔ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے اتحاد ثلاثہ کی ریشہ دوانیوں سے نہ صرف قوم بلکہ پوری دنیا باخبر ہے جس کی بنیادی وجہ پاکستان اور چین کے مابین اقتصادی راہداری کا منصوبہ ہے جو ایک گیم چینجر منصوبہ ہے اور اس کی فعالیت نہ صرف خطے کی تقدیر بدل کر رکھ دے گی بلکہ پاکستان دفاعی اعتبار سے بھی مزید مستحکم ہوجائے گا۔ یہ بات اس اتحاد ثلاثہ کیلئے ناقابل برداشت ہے اور اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کیلئے خاکم بدہن پاکستان کی شکست و ریخت تک کی منصوبہ بندی کئے ہوئے ہے جس کی تفصیلات بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے اعترافات کی صورت سب کے سامنے ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کا فتنہ نیا نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس دہشت گردی کے پیچھے زیادہ تر بیرونی قوتیں سرگرم عمل رہیں۔ خاص طور پر اس وقت دہشت گردی کا جو ہشت پا پاکستان کو جکڑ کر مفلوج کرنے میں کوشاں ہے اس کی غایت پاکستان کو ہرلحاظ سے عدم استحکام کا شکار کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ جدید دنیا میں دفاع کے ناقابل تسخیر ہونے کی بنیاد مضبوط معیشت ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری سے پاکستان کے معاشی استحکام کی ضامن۔ بھارت کے پیٹ میں جو مروڑ آئے روز اٹھتے ہیں ان کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے جس کا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس میں جائزہ لیا گیا اور اعلامیے میں کہا گیا کہ قومی مفادات کا تحفظ ہر صورت سرفہرست رہے گا اور بھارت کی شرانگیزی اور ریشہ دوانیوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ اعلامیے کے مطابق انسداد دہشت گردی کامیابیوں سےدیرپا امن و استحکام ممکن بنایا جائے گا۔ خطے کے تمام سٹیک ہولڈرز سے تعاون کرتے ہوے قومی مفاد کو مقدم رکھا جائے گا۔ مذکورہ اعلامیہ دراصل پاکستان کی اولین ترجیح کا عکاس ہے ۔ دوسری جانب پاکستان کو اب اپنی ضروریات کا بھی ادراک ہے اور اس سلسلے میں دنیا کا پاک چین اقتصادی راہداری کی وجہ سے پاکستان کی طرف جھکائو بھی بڑھ رہا ہے۔ اس ضرورت کا بھی احساس دلایا گیا تھا کہ امریکہ جن ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے ان کے مقابل پاکستان کو خرد مندانہ پالیسی اختیار کرنا ہوگی کہ 70سالہ یہ رفاقت ، حریفانہ چپقلش میں تبدیل نہ ہونے پائے۔ صدشکر کہ ایسا نہیں ہوا اور نہ ہوگا کہ مقاصد ایک ہوں تو مل کر زیادہ بہتر طریقے سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر متحرک ہونے اور اپنے دوستوں کی تعداد میں اضافے کا بھی مشورہ دیا گیا تھا جس کا نتیجہ پاکستان ، چین اورروس کا اتحاد ہے جس کے بارے میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے کہا ہے کہ مذکورہ اتحاد کسی ملک کے خلاف نہیں بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لئے ہے۔ پاکستان کی یہ کاوش اور یہ اتحاد ایک خوش آئند کامیابی ہے۔ دنیا بھر کے ممالک کو چاہئے کہ کشیدگی کی راہ چھوڑ کر ایک دوسرے سے معاشی و اقتصادی تعلقات استوار کرکے اپنے عوام کو بہتر زندگی دیں۔ دنیا کو انسانیت کی فلاح کی طرف آنا چاہئے نہ کہ تباہی کی طرف۔

تازہ ترین