• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں درجۂ حرارت اور گرمی کے موسم کا دورانیہ بڑھنے سے گلیشیر بتدریج پگھل رہے ہیں ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ عمل جاری رہا تو آئندہ دو دہائیوں میں دریا خشک ہو کر رہ جائیں گے اور آبپاشی کے لئے پانی دستیاب نہ ہونے سے زمینیں بنجر ہو جائیں گی۔ دوسری طرف قدرت نے ہمیں مون سون جیسے سیزن کی گراں بہا نعمت عطا کی ہے لیکن اس سے فیضیاب ہونے کی بجائے ہم اسے سیلابوں کی شکل میں زحمت بنا رہے ہیں ایک زرعی معیشت کے حامل ملک میں بارشوں کا پانی موثر منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے بہہ جاتا ہے اور سمندر کی نذر ہو جاتا ہے حالانکہ جغرافیائی لحاظ سے وطن عزیز میں ایسے مقامات کی کمی نہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیم بنا کر پورے ملک کی زمین کو زیرکاشت لایا جا سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں کل رقبے کا47فیصد، بھارت میں60.4فیصد قازقستان میں80.4فیصد (سب سے زیادہ) زیر کاشت لایا جا رہا ہے۔ 1961میں پاکستان میں یہ شرح 46.3فیصد اور بھارت میں58.8فیصد تھی۔ پاکستان میں صورت حال اس لئے بھی گھمبیر ہوتی جارہی ہے کہ آبادی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ایکنک) نے ملک کے شمالی علاقوں میں گلیشیرز پھٹنے کے باعث سیلاب کے خطرے کو کم کرنے کیلئے پراجیکٹ کی منظوری دی ہے جس پر تین ارب 94کروڑ روپے سے زائد خرچ آئیں گے۔ وزیر اعظم کی زیر صدارت اس اجلاس نے جلال پور اری گیشن کنال پراجیکٹ اورپاپین ڈیم پراجیکٹ کی بھی منظوری دی ہے اگرچہ یہ ایک درمیانے درجے کا ڈیم ہے تاہم اس سے 20ہزار ایکڑ زرعی رقبہ سیراب ہو سکے گا۔ اگر ملک بھر کی ضلعی حکومتوں کو یہ ٹاسک دیا جائے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں، خصوصاً پہاڑی علاقوں میں زیادہ سے زیادہ سمال ڈیم بنائیں تو بارشوں کا پانی ذخیرہ کر کے ملک بھر کو سرسبز و شاداب بنایا جا سکتا ہے اور غذائی بحران کا خطرہ بھی ٹل سکتا ہے۔

تازہ ترین