• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ میں پہلی بار لیبارٹیری میں انسانی بیضوں کی نشو ونما

لندن(نیوز ڈیسک) یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے تحقیقی ماہرین نے کہا ہے کہ پہلی بار لیباریٹری میں انسانی بیضوں کی نشوونما کی گئی ہے۔ٹیم نے کہا ہے کہ اس تکینک کے نتیجے میں کینسر میں مبتلا بچوں میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کےتحفظ کی نئی راہیں کھل جائیں گی۔ تحقیق سے یہ جاننے کا موقع بھی ملے گا کہ انسانی بیضے کس طرح پروان چڑھتے ہیں جس کے حقائق اب تک سائنس کے لئے ایک راز ہیں۔ ماہرین نے کہا ہے کہ تحقیقی نتائج ایک ہیجان خیز بریک تھرو ہیں مگر طبی طور پراس کے استعمال سے قبل مزید کام کی ضرورت ہے۔خواتین اپنی بچہ دانی میں خام بیضوں کے ساتھ پیدا ہوتی ہیںجو کہ بلوغت کے بعد نشوونما پاتے ہیں۔اس نکتہ پر عشروں سے کام ہو چکا ہے تاہم سائنسدان اب بیضوں کی بچہ دانی کے باہرنشوونما کر سکتے ہیں۔ ان کو انتہائی احتیاط سے لیباریٹری کا ماحول بنانا پڑتا ہے جس میں آکسیجن کی سطح،ہارمونز ، پروٹینزجو کہ بنائوٹی نشوونما پاتے ہیں میڈیم شامل ہیں جس میں بیضے تربیت پاتے ہیں۔سائنسدانوں کی جانب سے یہ عمل ممکن قرار دینے کے باوجود جرنل مالیکیولر ہیومن پروڈکشن کی کامیابی کے لئے ابھی تک مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔یہ تجربہ انتہائی غیر موثر ہے کیونکہ صرف10فیصد بیضے اپنی پختگی تک کا سفر مکمل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیںجبکہ بیضے زرخیزی کے قابل نہیں ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زیست پذیری پر غیر یقینی موجود ہے۔تحقیقی ماہرین میں سے ایک پروفیسر ایولین ٹیلر نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ امر انتہائی ہیجان خیز ہے کہ ایک اصول کا ثبوت حاصل کر لیا گیا ہے جس کے نتیجے میں انسانی ٹشوکے اس مرحلہ تک پہنچنا ممکن ہو گیا ہے تاہم بیضوں کے خلیوں کا معیار بہتر بنانے کے لئے مزید تحقیق اور کام کی ضرورت ہے۔انہوں نے بتایا کہ کینسر کے آپشنز کیمو تھراپی اور ریڈیو تھراپی سے خدشہ ہوتا ہے کہ وہ خواتین کے ان بیضوںکی صفائی کر دیتے ہیں۔خواتین اپنے علاج سے قبل اپنے پارٹنر سےزرخیزی پانے کی صورت میں بیضے یا ناپختہ جنین کو منجمد کروا سکتی ہیںتاہم بچپن میں کینسر میں مبتلا ہو جانے والی لڑکیوں کے لئے ایسا ممکن نہیں۔فی الوقت علاج سے قبل ان کی بچہ دانی کے ٹشوز کو منجمد کیا جاسکتا ہےجسے بلوغت کے بعد بچوں کی خواہش پر مریض کے رحم میں واپس رکھا جا سکتا ہے۔
تازہ ترین