• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلین ٹری سونامی، کے پی حکومت کا جواب، رپورٹر کی خبر کی تصدیق

Todays Print

پشاور(ارشد عزیز ملک )خیبرپختونخوا حکومت نے بلین ٹری سونامی میں بے قاعدگیوں کے حوالے سے وضاحت جاری کی ہے اور خبر کو حقائق کے برعکس قرار دیا ہے تاہم حکومت کی جانب سے جاری کردہ وضاحتی بیان میںایک بار پھر ’’جنگ‘‘ کے شائع شدہ اعداد و شمار کی مکمل تصدیق کی گئی ہے، ’’ بلین ٹری سونامی کی خبر میں تمام صحافتی اخلاقیات ، اقدار اور معیار کا خیال رکھا گیا‘‘ کئی ماہ کی طویل ریسرچ کے بعد حقائق کو منظر عام پر لایا گیا، تمام اعداد و شمار محکمہ جنگلات کے سیکرٹری نذر حسین شاہ اور بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے ڈائریکٹر محمد طہماسپ نے فراہم کئے، ان سے بار بار رابطہ کرکے ان کا موقف تفصیل سے شامل کیا گیا ،اعداد و شمار اور عمران خان کے دعوئوں میں واضح فرق تھا جس کی نشاندہی کی گئی ، عمران خان نے دانستہ یا غیر دانستہ حقائق اور اعداد و شمار کو درست نہیں بتایا جو غلط بیانی کے زمرے میں آتا ہے، اگر عمران کو حقائق سے بے خبر رکھا گیا یااعداد و شمار غلط بتائے گئے تو انہیں اس حوالے سے ذمہ داروں سے بازپرس کرنی چاہیے،تمام اعداد و شماراطلاعات تک رسائی کے قانون کے تحت حاصل کئے گئے جس کی دستاویز موجود ہیں جن میں شجرکاری کے ذریعے 24کروڑ پودے لگائے گئے جبکہ 15کروڑ 30لاکھ پودے مفت تقسیم کئے گئے،اسی طرح خستہ حال جنگلات کی دیکھ بھال کے ذریعے 73کروڑ 20لاکھ نوپود اور 2کروڑ 70لاکھ خودرو پودے نکلے یوں عمران کا ایک ارب 18کروڑ پودے لگانے کا دعویٰ درست ثابت نہیں ہوتا ،بغیر ٹینڈر خریداری اور ساڑھے6ارب کی نقد ادائیگیاں سوالیہ نشان ہیں ۔اعتراض1۔ خیبرپختونخوا حکومت کی جاری سرکاری دستاویزات میں بلین ٹری سونامی کے حوالے سے عمران خان کے دعوئوں کی کبھی کوئی نفی نہیں کی گئی، 14نومبر 2017ء کو میگا ایونٹ کے موقع پر اپنی تقریر میں عمران خان نے کہا تھا کہ خیبرپختونخوا میں ایک ارب سے زائد پودے لگائے گئے اور خستہ حال قدرتی جنگلات کو شجرکاری اور باڑلگا کر بحال کیاگیا اور شجر کاری ذاتی ملکیتی اراضی پر بھی کی گئی ۔جواب ۔ اس حوالے سے عمران خان کی تقریر تمام الیکٹرانک میڈیا نے دکھائی جس میں انہوں نے صوبے میں ایک ارب 18کروڑ پودے لگانے کا ہدف حاصل کرنے کا اعلان کیا اور تمام اہلکاروں کو مبارکباد دی، عمران نے قدرتی نوپود اور خودرو پودوں کا ذکر نہیں کیا تھا، انہوں نے ایک ارب 18کروڑ پودے لگانے کا دعویٰ کیا تھا جو اخبارات میں بھی شائع ہوا اور یہی دعویٰ دستاویزات سے متضاد تھا ۔اعتراض2۔ منصوبہ کی دستاویزات کے مطابق ایک ارب پودے لگانے کے ہدف کا 60فیصد پودوں کے قدرتی رجحان یعنی نوپود اور خود رو پودوں کے ذریعے حاصل کیا گیا جن کیلئے 4509انکلیوژرز بھی بنائے گئے ،صوبائی فارسٹری ریسورس انوینٹری (پی ایف آر آئی) کے سروے جو جی آئی زیڈ 1996ء کے ذریعے کروایاگیا تھا کے مطابق خیبرپختونخوا میں 78فیصد جنگلات کے ذخیرہ میں 74فیصد جنگلات میں کوئی نوپود اگ رہی ہے اور نہ لگائی جا رہی ہے ، بلین ٹری سونامی منصوبہ کے تحت تباہ شدہ جنگلات کو بحال کیاگیا ہے اور مقامی آبادی کی مدد سے گزشتہ چار سال سے مسلسل نگرانی اور حفاظت کی وجہ سے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے ہیں، غیر جابندار جائزہ پارٹی ڈبلیو ڈبلیو ایف کی رپورٹ کے مطابق خراب ہوتے جنگلات میں 2412بیج فی ہیکڑ کے حساب سے لگا کر جنگلات کو بحال کیاگیا ہے، اسی طرح تحقیق و ترقیاتی ڈائریکٹوریٹ کی رپورٹ کے مطابق انکلیوژرز میں 3100بیج فی ہیکڑ کی شرح سے اگائے گئے ہیں، انکلوژرز کے 306983ہیکڑ رقبہ میں 732ملین بیج لگائے گئے ،عالمی سطح پر یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ قدرتی طور پر پودے اگانا کم خرچ ہوتا ہے،امریکا جیسے ترقیافتہ ممالک میں 95فیصد پودے بیج کاری کے قدرتی طریقہ کے ذریعے اگا کر جنگلات میں اضافہ کیاگیا ۔جواب ۔ ’’جنگ‘‘ نے بھی یہی دعویٰ کیا تھا کہ نوپود اور خودرو پودوں کو شمار کرکے ایک ارب 18کروڑ پودوں کا اعلان کیاگیا،ڈبلیو ڈبلیو ایف نے فی ہیکڑ 1060پودوں کی تصدیق کی ہے یوں مجموعی طور پر 306983ہیکڑ میں پودوں کی تعداد 73کروڑ 20لاکھ نہیں بتنی لیکن اس پر بھی ہم نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا ۔اعتراض 3۔ بلین ٹری سونامی منصوبہ ذاتی اور سرکاری اراضی پر درخت اگا کر مکمل کیا جانا تھا، منصوبہ کے تحت نمک اور سیم و تھور کی شکار اراضی پر شجرکاری اور سڑک کنارے درخت لگانا تھے اور اس مقصد کیلئے ہر اراضی پر اس کی قدرتی استعداد کے مطابق درخت لگائے گئے اس سرگرمی کے تحت 298ملین پودے لگائے گئے،مجموعی ہدف کو حاصل کرنے کیلئے 200ملین پودے مفت تقسیم کئے جانا تھے تاکہ جنگلات کے رقبہ میں اضافہ کیا جا سکے، ان پودوں میں 153ملین پودے انتہائی شفاف طریقے سے بلامعاوضہ تقسیم کئے گئے ۔جواب ۔حکومت کی جانب سےفراہم کردہ تمام اعداد و شمار اور مفت پودوں کی تقسیم کے بارے میں تفصیل اور حکومتی موقف بھی خبر میں موجود ہے ۔ اعتراض4۔ 306983ہیکڑ رقبہ پر 4509انکلیوژرز لگانے کیلئے 732ملین پودے اگائے گئے، تمام درجوں میں بیج اگا کر اور 209008ہیکڑ رقبہ کیلئے 298ملین پودے اگائے گئے ، فارم فارسٹری کے تحت 153ملین پودے لوگوں میں مفت تقسیم کئے گئے ۔جواب ۔’’ جنگ‘‘ کے اعداد و شمار کی ایک بار پھر تصدیق کی جا رہی ہے کہ قدرتی طور پر 73کروڑ 20لاکھ پودے نکلے جبکہ 15کروڑ 30لاکھ مفت تقسیم ہوئے ۔اعتراض 5۔ بلین ٹری سونامی پروگرام کا ہدف صوبہ کے جنگلا ت میں ایک ارب پودے لگانا تھا لیکن انکلیوژرز کی موثر نگرانی اور 183ملین پودے لگاکر 600ملین کے ہدف کی بجائے 732ملین پودے لگائے گئے جو کم خرچ بھی تھے، اسی طرح تمام اقسام کے 200ملین پودوں کی جگہ 298ملین پودے اگائے گئے ،ڈبلیو ڈبلیو ایف جو ایک آزاد تنظیم ہے نے شجر کاری مہم کی مانیٹرنگ کی اور منصوبہ کے تحت سرگرمیوں خصوصاً 85فیصد جنگلات کو بچانے کی تعریف کی ʼ یہ شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے ۔جواب ۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے صرف 20فیصد پراجیکٹ کو چیک کیا جبکہ اعداد و شمار میں فرق موجود ہے، ایک ہیکڑ میں ڈبلیو ڈبلیو ایف پودوں کو 1060شمار کرتی ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا، سیکریٹری جنگلات اور پراجیکٹ ڈائریکٹر کا موقف تفصیلاً موجود ہے ۔اعتراض 6۔153ملین پودے بلامعاوضہ تقسیم ہوئے اور اس کا مکمل ریکارڈ موجود ہے جو کسی بھی وقت دیکھا جا سکتا ہے، پودوں کی مفت تقسیم میں درخواست گزار کا نام، ولدیت، پتہ، شناختی کارڈ نمبر، موبائل فون نمبر اور حاصل کردہ پودوں کی تعداد، قسم وغیرہ بھی متعلقہ دفاتر میں موجود ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے بھی اس کی تصدیق کی ہے، پودوں کی مفت تقسیم میں درخواستوں کا جائزہ لیا گیا اور متعلقہ سی ڈی او نے پودوں کی تقسیم اور ترسیل کی آخر تک نگرانی کی ۔جواب ۔ محکمہ جنگلات کے مطابق 15کروڑ 30لاکھ پودے مفت بانٹے گئے لیکن اس کیلئے کوئی طریقہ کار اختیار نہیں کیاگیا جبکہ ڈبلیو ڈبلیو ایف کا موقف ہے کہ اس نے صرف 10فیصد مفت پودوں کی تقسیم کو چیک کیا ہے، 90فیصد کے حوالے سے شکوک و شبہات موجود ہیں،کئی مقامات پر لوگوں نے شدید اعتراضات بھی اٹھائے،وضاحت میں نہیں بتایا گیا کہ پودوں کو کتنی بار چیک کیاگیا اور کب تک ان پودوں کو چیک کیا جاتا رہے گا، کیا اب پودے موجود ہیں یا نہیں؟ اس کے باوجود محکمے کا موقف وضاحت کے ساتھ شائع کیاگیا۔ اعتراض7۔ اتنے بڑے ہدف کو 3سال میں حاصل کرنے کیلئے اہم اقدامات کئے گئے، منصوبہ کیلئے خطیر فنڈز مختص کئے گئے اور اتنی بڑی رقم قیام پاکستان سے لے کر آج تک کبھی کسی حکومت نے نہیں دی، منصوبہ میں ایف ای اینڈ ڈبلیو ڈی کے مختلف ونگز،محکمہ جنگلی حیات، محکمہ جنگلات، ایف ڈی سی، ای پی اے، پی ایف آئی، سول سوسائٹی،قانون نافذ کرنے والے ادارے اور دیگر سے بھی معاونت و مدد لی گئی،اسی طرح عوامی نمائندوں،کمیونٹی اور مقامی حکومتوں و ضلعی انتظامیہ کو بھی منصوبہ میں شامل کیاگیا، عملے نے دن رات کام کیا حتیٰ کہ چار سال کے دوران عملہ کے ارکان نے سرکاری تعطیلات کے دوران بھی کام جاری رکھا،اب تک ٹمبر و لینڈ مافیا اور آگ کا مقابلہ کرتے ہوئے 10قیمتی جانیں جا چکی ہیں جبکہ 5افراد زخمی ہوئے اور ایک اہلکار مستقل معذور ہوچکا ، منصوبہ کو مقامی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے سراہا اور اس کی مثبت انداز میں تشہیر کی، چیف کنزرویٹر جنگلات سے لے کر فارسٹ گارڈ تک نے تمام سرگرمیوں کی مانیٹرنگ کی، سیکریٹری ایف ای اینڈ ڈبلیو ڈی نے سی سی ایف کے ہمراہ منصوبہ کی سرگرمیوں کا ازخود جائزہ لیا اور معیار و مقدار یقینی بنانے کیلئے زیادہ وقت فیلڈ میں گزارا، پی ایم یو، پی ایف اینڈ ایم سرکل، ایم اینڈ ای ڈائریکٹوریٹ نے تمام سرگرمیوں کی کڑی نگرانی کی اور معیار و مقدار میں کمی کا مسئلہ فوری متعلقہ عملہ کے ساتھ اٹھا کر ایشو حل کیاگیا، محکمہ جنگلات کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غیر جانبدار پارٹی کے ذریعے منصوبے کی مانیٹرنگ کی گئی، منصوبہ میں پیش رفت کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لیاگیا، اہم سرکاری و حکومتی شخصیات اور اپوزیشن لیڈروں کے دوروں نے بھی کافی مدد کی، وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کا اسٹرٹیجک سپورٹ یونٹ بھی ہمیشہ سے خیبرپختونخوا میں مختلف منصوبوں کا مسلسل جائزہ لیتا رہا ہے اور بلین ٹری سونامی پروگرام کی بروقت تکمیل اس کی اولین ترجیح رہی ہے ۔جواب ۔محکمہ جنگلات کا موقف خبر میں موجود ہے، موقف بار بار دہرایا جا رہا ہے،اس حوالے سے محکمہ جنگلات کی کئی خبریں گروپ شائع کر چکا ہے ۔اعتراض 8۔ مندرجہ بالا حقائق کے پیش نظر ہدف مختصر وقت میں حاصل کیاگیا ، تمام تر سرگرمیوں کو جی پی ایس /جی آئی ایس کے ذریعے دیکھا گیا اور شفافیت یقینی بنائی گئی، پہلی مرتبہ تمام تر سرگرمیوں کو مربوط کرکے پراجیکٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیاگیا اور اس طرح ایک عام آدمی بھی اپنے اسمارٹ فون کے ذریعے تمام سرگرمیوں کی تصدیق کر سکتا ہے، علاوہ ازیں ہر فارسٹ ڈویژن سے متعلق مالیاتی تفصیلات بھی موجود ہیں، آر ٹی آئی نے منصوبے کی شفافیت کو سراہا ہے ۔جواب ۔جواب کی ضرورت نہیں،موقف بار بار دہرایا جا رہا ہے ۔اعتراض 9۔ منصوبے کی ابتدائی لاگت کا تخمینہ 22ارب روپے تھا جس کے تحت ایک ارب پودے 4سال میں لگائے جانے تھے تاہم یہ ہدف 3سال میں صرف ساڑھے 12ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیاگیا ۔جواب ۔ خبر میں وضاحت موجود ہے کہ 22ارب روپے کا پراجیکٹ تھا جس کو 12.5ارب روپے میں مکمل کیاگیا ۔اعتراض 10۔ جہاں تک شفافیت کا تعلق ہے تو اس حوالے سے پہلی مرتبہ شجرکاری سرگرمیوں کو جدید سائنسی طریقوں سے مانا گیا اور ایک غیر جانبدار تھرڈ پارٹی کے ذریعے اس کی مانیٹرنگ کی گئی، علاوہ ازیں مقامی آبادی کو بھی اس میں شریک کیاگیا ۔جواب ۔ڈبلیو ڈبلیو ایف کو کنسلٹنٹ اور تھرڈ پارٹی مانیٹرنگ کے طور پر رکھا گیا حالانکہ کنسلٹنٹ اور تھرڈ پارٹی مانیٹرنگ کیلئے الگ الگ اداروں کی موجودگی ضروری تھی جس پر سوالات اٹھ رہے ہیں کیونکہ ڈبلیو ڈبلیو ایف کو ڈیڑھ کروڑ روپے کی ادائیگی ہوئی اور انہوں نے صرف 20فیصد پراجیکٹ کو چیک کیاجبکہ 80فیصد کا صرف اندازہ ہی لگایا گیا،ڈبلیو ڈبلیو ایف کے پاس صوبے میں 11افراد ہیں جبکہ انہوں نے 12طلباءکی خدمات حاصل کیں لیکن ہم نے سروے پر بھی کوئی اعتراض نہیں اٹھایا ۔اعتراض 11۔ منصوبہ میں 5لاکھ افراد بالواسطہ یا بلاواسطہ شریک رہے، ان لوگوں نے پودے لگانے، نرسریاں اگانے سمیت پودوں کی ترسیل اور دیگر متعلقہ سرگرمیوں کا معائنہ کیا، ساڑھے 6ہزار افراد انکلیوژرز میں لگائے گئے پودوں کے ’’نگہبان اور چوکیدار‘‘ کی حیثیت سے ماہانہ تنخواہ لے رہے ہیں، یہ لوگ باقاعدہ طریقہ کار کے تحت نرسریوں اور پودوں کی حفاظت و نگرانی کرتے ہیں ۔جواب ۔ خبر میں موجود ہے کہ 6500چوکیدار اور نگہبان بھرتی کئے گئے ہیں جن کو ماہانہ 15000روپے تنخواہ مل رہی ہے تاہم آئندہ سالوں میں عارضی ملازمین کے مستقبل کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ۔ اعتراض 12۔ بلین ٹری سونامی منصوبے کے تحت شفافیت کو ترجیح دی گئی اور زیادہ تر ادائیگی کراس چیک کے ذریعے کی گئی، 4509نگہبان،2000چوکیداروں اور 13260نجی نرسریوں کو کراس چیک کے ذریعے ادائیگیاں کی گئیں، اسی طرح سرکاری نرسریوں میں کو بھی خریداری کیلئے 10ہزار روپے کراس چیک کی صورت میں دئیے گئے، پی ایم یو 5مختلف ڈائریکٹوریٹس سی ڈی ای اینڈ جی اے ڈی آر اینڈ ڈی، آئی این ایچ آر ڈی، این ٹی ایف پی اور ایف پی اینڈ ایم سرکل نے منصوبہ کے حوالے سے کراس چیک جاری کئے، پراجیکٹ کیلئے 16ڈبل کیبن گاڑیاں،5سنگل کیپ پک اپ، ٹریکٹرز، ٹینکرز وغیرہ خریدے گئے اور یہ خریداریاں باقاعدہ طریقہ کار کے تحت ہوئیں جن کیلئے ادائیگیاں کراس چیک سے کی گئیں حتیٰ کہ منصوبہ کے حوالے سے ورکشاپس، تہنیتی تقریبات کیلئے بھی ادائیگیاں کراس چیکوں کے ذریعے ہوئیں، شجر کاری اور سرکاری نرسریوں کیلئے روزانہ اجرت پر لیبرز کی خدمات لی گئیں اور مہینہ بعد ان کو حکومتی طریقہ کار کے تحت ادائیگیاں کی گئیں، اس طرح ساڑھے 12ارب روپے کی کل ادائیگیوں میں 50فیصد ادائیگی کراس چیک پر کی گئیں جبکہ باقی 50فیصد ادائیگی لیبر کو رجسٹرمیں اندراج کے تحت نقد ہی کی گئی ۔جواب ۔ حکومت خود تسلیم کر رہی ہے کہ 6ارب 25کروڑ روپے کی ادائیگیاں چیک کے ذریعے اور باقی 6ارب 25کروڑ کی ادائیگیاں نقد کی صورت میں کی گئی جس پر اپوزیشن جماعتوں نے اعتراضات بھی اٹھائے، اس حوالے سے نیب ہی تحقیقات کر سکتا ہے،کس قانون کے تحت ساڑھے 6ارب روپے کی ادائیگی نقد کی صورت میں کی گئی حالانکہ قوانین کے مطابق تمام ادائیگیاں بینک کے ذریعے ہونی چاہئیں،بینک میںبآسانی 500روپے کا اکائونٹ کھولا جا سکتا تھا پورے صوبے میں بینکوں کی برانچز موجود ہیں، لوگوں کے دستخط اور انگوٹھے لگوا کر نقد رقم تقسیم کی گئی جس کی فرانزک تحقیقات کرائی جائیں تو مزید گھپلے منظر عام پر آئیں گے۔ ایک افسر نے نام نہ لکھنے کی شرط پر بتایا کہ اس معاملے میں سنگین گھپلے موجود ہیں۔اعتراض 13۔ خبر میں نرسریوں کے چنائو، پودوں کی تقسیم کار کے حوالے سے بے قاعدگیاں محض مفروضہ ہے،فیز ون کے پی سی ون کے تحت پرائیویٹ نرسریوں کو کم ازکم 4یونٹ (ایک لاکھ پودے) دئیے گئےاور اس سے متعلق موقر جرائد میں باقاعدہ تشہیر بھی کی گئی اگرچہ اس کا ردعمل حوصلہ افزاءنہیں آیا تاہم زمین کی کمی، تجربہ اور ماہر لیبر کی کمی کے پیش نظر مارچ 2015ء میں اہداف کو بہتر بنایا گیا اور اس میں نوجوانوں ،خواتین اور بزرگ شہریوں کو بھی شریک کیا گیا، جہاں تک پودوں کی خریداری کا تعلق ہے تو اس حوالے سے قیمتیں پہلے ہی سے مقرر کر دی گئی تھیں جس کے تحت9انچ کا پودا 6روپے اور5فٹ کا پودا 9روپے میںخریدا گیا ۔جواب۔ پی سی ون میں چار یونٹ یعنی ایک لاکھ تک پودوں کی فراہمی کی حد مقرر تھی، محکمہ تسلیم کر رہا ہے کہ اس میں ترمیم کی گئی جس کا مقصد منظور نظر افراد کو فائدہ پہنچانا تھا، نوجوانوں، خواتین اور بزرگ شہریوں کی بڑی تعداد پودوں کیلئے آرڈر لینے سے محروم رہی ۔اعتراض14۔ خبر میں کہا گیا ہے کہ پرائیویٹ نرسریوں سے پودے خریدنے میں ٹینڈرنگ کے طریقہ کار کو نہیں اپنایا گیا تو منصوبہ کا بنیادی مقصد ایک ارب پودے لگانا اور لوگوں کو روزگار فراہم کرنا تھا، لہٰذا قواعد کے تحت اس کیلئے ٹینڈرنگ کی ضرورت نہیں ہوتی، ٹینڈرنگ عموماً وہاں کی جاتی ہے جہاں کسی ایک شخص یا کمپنی کو منتخب کیا جانا ہوتا ہے اور نرخ پوشیدہ ہوتے ہیں جبکہ اس کیس میں نرخ پہلے سے ظاہر تھے اور کسی ایک کمپنی یا شخص کی بجائے کمیونٹی کو اس میں شریک کیا جانا تھا، منصوبہ کے تحت 13ہزار افراد کو اس سے فائدہ ہوا اور پودوں کا ذخیرہ بھی مقررہ وقت پر مل گیا علاوہ ازیں ان پرائیویٹ نرسریز کا انتخاب کیا گیا جو شجر کاری والے علاقے کے قریب ترین تھیں تاکہ وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ تازہ پودوں کی ترسیل یقینی بنائی جا سکے، اگر ایسا نہ کیا جاتا تو کسی ایک شخص یا کمپنی کیلئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ 3350ملین پودے 9780کنال اراضی میں کاشت یا اگا کر آگے فراہم کر سکے اس لئے پودوں کی تعداد صوبہ بھر میں مختلف نرسریوں میں تقسیم کی گئی ۔جواب ۔ کیپرا رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 39کروڑ 30لاکھ پودے خریدے گئے جن کیلئے 6اور 9روپے کے حساب سے ادائیگیاں کی گئیں جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا حالانکہ یہی پودے بازار میں سستے مل سکتے تھے،بیر، لاچی، سفیدہ سمیت تمام پودے بازار میں نہایت کم قیمت پر دستیاب ہیں،کیپرا ایکٹ 2012ء کے سیکشن 2کے تحت جو خریداری گڈز اور ورکس میں نہیں آتی وہ سروسز کے زمرے میں آتی ہے،اگر معاملہ روزگار کا تھا تو پھر غریبوں کو آرڈر ملنے چاہیے تھے ۔اعتراض15۔ خبر میں پودوں کی تین گنازیادہ قیمت کے حوالے سے وضاحت کی جاتی ہے کہ سپلائرز کو کہاگیا تھا کہ مطلوبہ اقسام کے پودے معیار اور مقدار کے مطابق مقررہ نرخ پر فراہم کئے جائیں تاہم اگر کسی کاشتکار نے کوئی فائدہ حاصل کیا ہے تو اس نے مزدور کی تنخواہ،اراضی یا نگہبانی کی مد میں حاصل کیا ہوگا، جہاں تک اس وقت کے چیف سیکریٹری کے بھائی کا تعلق ہے تو وہ مردان کا رہائشی تھا اور تمام شرائط پوری کر رہا تھا ۔ جواب ۔مارکیٹ سے تین گنا مہنگے داموں پودے خریدنے کا اعتراف کیا جا رہا ہے جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا، 24کروڑ شجر کاری اور 15کروڑ 30لاکھ مفت تقسیم کیلئے 6 اور 9روپے کے حساب سے 2ارب 35کروڑ سےلیکر 3ارب 53کروڑ 70لاکھ روپے کے درمیان ادائیگیاں کی گئیں یہی پودے مارکیٹ میں اوپن ٹینڈر کے ذریعے60سے 80کروڑ میں خریدے جا سکتے تھے ، اگر نصف قیمت میں بھی خریدے جاتے تو ایک ارب 18کروڑکی بچت ہوتی اس کے علاوہ بھی اخراجات میں کمی آسکتی تھی،سابق چیف سیکریٹری امجد علی خان کے بھائی ایک اعلیٰ سرکاری افسر تھے جن کو 10لاکھ پودوں کی فراہمی کا آرڈر دیاگیا اسی طرح 100کے قریب منظور نظر اور بااثر افراد کو بھاری بھاری آرڈر دیدئیے گئے، مہنگے داموں پودے خریدنے کا فائدہ بڑے زمینداروں اور بااثر افراد کو ہوا ۔اعتراض16۔ خبر میں کہاگیا کہ 60فیصد ٹارگٹ قدرتی نمو سے حاصل کیا جبکہ 40فیصد محکمہ جنگلات و فارم فارسٹری کے ذریعے حاصل ہوا، اسی طرح 80فیصد بیج کاری پرائیویٹ شعبہ اور 20فیصد سرکاری نرسریوں سے ہوئی ۔جواب ۔محکمہ ایک بار پھر تسلیم کر رہا ہے کہ 40فیصد شجر کاری اور مفت تقسیم جبکہ 60فیصد قدرتی طور پر آئے ہیں پھر عمران خان کو کیوں اندھیرے میں رکھا گیا ۔اعتراض 17۔ منصوبہ کی سرگرمیوں کی نگرانی کیلئے کمیٹی نہ بنا ئے جانے کے حوالے سے بھی وضاحت کی جاتی ہے کہ ہر فارسٹ ڈویژن میں ایک کمیٹی قائم کی گئی جس کا کام پرائیویٹ نرسریوں کی نگرانی کرنا تھا، علاوہ ازیں ڈبلیو ڈبلیو ایف، پی ایم یو، ایف پی اینڈ ایم اور ایم اینڈ ای ڈائریکٹوریٹ بھی موجود تھے ، حتمی ادائیگی باقاعدہ گنتی اور کمیٹی کی تصدیق کے بعد کی گئی ۔جواب۔ محکمے کے نچلی سطح کے عملے جس میں فارسٹ گارڈ اور فارسٹر شامل ہے انہوں نے نرسریوں سے پودے وصول کئے اور پھر انہی پودوں کی شجرکاری بھی خود کرائی ، اسی بناء پر بے قاعدگیوں کی شکایات آئیں، پراجیکٹ ڈائریکٹر نے خود تسلیم کیا ہے کہ اس حوالے سے شکایات آئیں، ہر معاملے میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کو شامل کیا جا رہا ہے حالانکہ انہوں نے صرف 20فیصد حصہ چیک کیا ۔اعتراض 18۔ جہاں تک ڈائریکٹر اینٹی کرپشن کے ارشد علی خان کے گھر پر چھاپہ کا تعلق ہے تو یہ ان کا کوئی نجی معاملہ تھا، اس حوالے سے بنائی گئی کمیٹی نے ارشد علی خان کے خلاف الزامات کو غلط قرار دیا،ارشد علی خان کے یونٹوں سے 10لاکھ صحت مند اور معیار کے مطابق پودے لئے گئے یہ درست نہیں کہ صرف پشاور، چارسدہ اور مردان میں بڑے یونٹ قائم اور منتخب کئے گئے تھے، درحقیقت صوبہ بھر میں مطلوبہ معیار و سائز کے پودے بروقت حاصل کرنے کیلئے یونٹ بنائے گئے تھے ۔جواب ۔ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن ضیاء اللہ طورو نے سابق چیف سیکریٹری کے بھائی ارشد علی خان کے گھر پودوں کے حوالے سے شکایات ملنے پر چھاپہ ماراجس پر ان کے خلاف انتقامی کارروائی کی گئی اس حوالے سے پشاور ہائیکورٹ میں رٹ بھی موجود ہےجس میں تمام حقائق موجود ہیں۔ علاوہ ازیںاینٹی کرپشن سپیشل ٹیم نے بھی مختلف جگہوں کا معائنہ کیا تو سنگین بے قاعدگیاں اور بے ضابطگیاں سامنے آئیں، اینٹی کرپشن کو تحقیقات سے روکا گیا جبکہ ڈائریکٹر کو کھڈے لائن لگا دیاگیا، اینٹی کرپشن کے ریکارڈ میں شکایات اور رپورٹیں موجود ہیں ۔اعتراض19۔ ہر سرکاری محکمہ اور ملازم مروجہ سول سروس ایکٹ 1973ءکے تحت کام کرتا ہے جب کبھی کوئی افسر یا اہلکار کارکردگی نہ دکھائے یا کرپشن میں ملوث پایا جائے تو اس کیخلاف انضباطی کارروائی کی جاتی ہے ۔جواب ۔ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن کا کیس عدالت میں موجود ہے ۔ خیبرپختونخوا حکومت نے ہی انہیں بلوچستان سے بلوا کر ڈائریکٹر اینٹی کرپشن تعینات کیا تھا جس کے بعد وزیر اعلیٰ نے ڈائریکٹر اینٹی کرپشن کا چارج اپنے چیف سکیورٹی آفیسر کو دیدیا۔اعتراض 20۔ کیونکہ یہ ایک بہت بڑا منصوبہ تھا اور ہدف بھی مختلف تھا جس کا محکمہ جنگلات کے عملہ کو کوئی تجربہ نہ تھا اس لئے عملدرآمد کے دوران کوئی کمی دیکھی گئی تو متعلقہ عملہ کو موقع ہی پر ہدایات جاری کی گئیں اور تصحیح کی ہدایت کی گئی، بے قاعدگی میں ملوث اہلکار کیخلاف کارروائی کی گئی، منصوبہ میں کوئی مضحکہ خیزی کی گئی نہ ہی کسی غیر ذمہ دار شخص کو منصوبہ میں شامل کیا گیا ، ابھی تک کوئی کرپشن اسکینڈل نہیںدیکھا گیا ہے ۔جواب ۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں بھی اراکین نے بلین ٹری سونامی میں کرپشن کے الزامات عائد کئے ،کسی بھی ادارے کے ذریعے معاملات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔اعتراض 21۔ پرائیویٹ شعبہ میں قائم نرسریوں میں کے پی پی آر اے قواعد لاگو نہیں ہوتے، پودے زرعی شیڈول کے تحت آتے ہیں کیونکہ یہ کوئی ’’سامان‘‘ نہیں لہٰذا اس پر کیپرا رولز لاگو نہیں ہوتے ہیں نہ ہی سیلز یا انکم ٹیکس لاگو ہوتا ہے کیونکہ پرائیویٹ نرسریوں کے کاروبار پر ایف بی آر اپنا ٹیکس لگاتا ہے ۔جواب ۔ کیپرا رولز کی خلاف ورزی ہوئی کیونکہ پودوں کی خریداری سروسز کے ذمرے میں آتی ہے، جس کیلئے ٹینڈر ضروری ہے ۔اعتراض 22۔ یہ درست ہے کہ وزیراعلیٰ کا ہیلی کاپٹر ہوا سے بیج گرانے کیلئے استعمال ہوا اور مختلف اقسام کے 27ٹن بیج کو گرایا گیا، اس عمل میں 18لاکھ روپے خرچ ہوئے،ان بیجوں کو نہیں گنا گیا ۔جواب ۔ اس کا ذکر خبر میں تفصیل سے موجود ہے، 27ٹن کو الگ سے لکھاگیا ہے ۔اعتراض23۔ رپورٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ سیکریٹری ایف ای اینڈ ڈبلیو ڈی نے وضاحت کی ہے کہ 60فیصد نوپود انکلوژرز کے ذریعے اور 40فیصد شجر کاری کے ذریعے کی گئی ہے، سیکرٹری نے یہ بھی بتایا ہے کہ منصوبہ ساڑھے 12ارب کی لاگت سے مکمل ہوا ہے جبکہ پی سی ون کے تحت منصوبہ 22ارب روپے میں مکمل ہونا تھا، اس حوالے سے وزیراعلیٰ نے منصوبہ کی تعریف کرتے ہوئے منصوبہ کی مزید 2سال یعنی جون 2020ءتک توسیع کی ہدایت کی جس پر 7710ملین روپے کی لاگت آنی تھی اور اگر توسیعی عرصہ کی لاگت بھی شامل کرلی جائے تو منصوبہ کی کل لاگت 19ارب روپے بنتی ہے ۔جواب۔ خبر میں سیکرٹری جنگلات کا موقف موجود ہے کہ 22ارب کا پراجیکٹ12.5ارب میں مکمل ہوا، اس میں بھی اعداد و شمار کی تصدیق ہوتی ہے ۔اعتراض 24۔ صوبہ بھر میں آڈٹ کرایا گیا ہے اور پہلی مرتبہ آڈٹ افسروں نے دستاویزی ریکارڈ چیک کرنے سمیت عملی کام بھی چیک کیا ہے، اسی طرح اکائونٹینٹ جنرل سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ آڈٹ کے عمل کی خودنگرانی کریں ، علاوہ ازیں ایم او سی سی سے بھی کہا گیا ہے کہ ایس او ڈبلیو ٹی کے ذریعے عالمی فرم سے بھی منصوبہ کا آڈٹ کرائیں ۔جواب ۔ ابھی تک کسی عالمی ادارے نے پراجیکٹ کا مالیاتی آڈٹ نہیں کیا ۔اعتراض25۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف منصوبہ کے تمام مراحل کی مانیٹرنگ کرتا رہا ہے اور جب رپورٹر نے منصوبہ سے متعلق پوچھا تھا تو بتایاگیا تھا کہ منصوبہ بالکل درست سمت میں ہے، ڈبلیو ڈبلیو ایف نے 18.1بلین بیج کاری کی تصدیق کی تھی اور تھرڈ پارٹی کی رپورٹ بھی منصوبہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے ۔جواب۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کا موقف موجود ہے جنہوں نے قدرتی، شجر کاری اور مفت تقسیم کے اعداد و شمار کا ذکر کیا ہے لیکن مالیاتی معاملات کی ذمہ داری ڈبلیو ڈبلیو ایف نے نہیں لی ۔اعتراض26۔ ان تمام حقائق کو مد نظر رکھ کر رپورٹر نے قارئین کو گمراہ کیا ہے اور جہاں تک سابق وزیراعلیٰ حیدر ہوتی کے بیان کا تعلق ہے تو یہ محض ایک سیاسی بیان ہے، منصوبہ کے تمام مراحل، سرگرمیوں کا مربوط ریکارڈ موجود ہے اس کے علاوہ بلین ٹری منصوبہ کی ویب سائٹس پر ہر پودوں کی تعداد و معیار اور ان پر آئی لاگت کی تفصیلات موجود ہیں ۔جواب۔اعداد و شمار اور حقائق منظر عام پر لانا صحافی کا فرض ہے، جس کی بار بار محکمہ تصدیق کر رہا ہے، خیبرپختونخوا اسمبلی میں سوالات اٹھائے گئے تو وزیر جنگلات اشتیاق ارمڑ اسمبلی میں موجود ہی نہیں تھے جس پر اسمبلی میں ہنگامہ ہوا ، حکومت اسمبلی میں جواب دے۔ رپورٹر اپنی خبر پر قائم ہے کہ بلین ٹری سونامی میں بے قاعدگیاں ہوئیں، منصوبہ بندی کا فقدان تھا جلد بازی میں منصوبہ مکمل کرنے کیلئے بے ضابطگیاں ہوئیں تاکہ انتخابات سے قبل سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکے، خیبرپختونخوا حکومت کے ذمہ داروں نے عمران خان کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر حقائق سے بے خبر رکھا گیا ہے، اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا جس کے باعث منصوبہ متنازعہ بنا، بلین ٹری سونامی کیلئے صاف و شفاف انداز میں ٹینڈر کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا تو قومی خزانے کو کم ازکم ایک سے ڈیڑھ ارب روپے کی بچت ہوتی ، کیپرا ایکٹ 2012ءکے تحت کروڑوں اور اربوں کے منصوبے بغیر ٹینڈر کے نہیں دئیے جا سکتے،ساڑھے 6ارب روپے کی ادائیگیاں براہ راست نقدکی صورت میں گئیں جس کی قانون اجازت نہیں دیتا، اکائونٹ یا کراس چیک کے ذریعے ادائیگیاں نہ کرکے معاملے کو مشکوک بنا دیاگیا ہے جن افراد کو ادائیگیاں ہوئیں ان کے دستخط اور انگوٹھوں کے نشانات کی فرانزک تصدیق ضروری ہے تاکہ معاملات کی شفافیت پر اٹھنے والے سوالات کے جوابات مل سکیں ، پی سی ون کے تحت چار یونٹ دینے کا فیصلہ غریبوں کیلئے کیاگیا تھا لیکن منظور نظر افراد کو نوازنے کیلئے بااثر افراد کو لاکھوں پودوں کا آرڈر دیاگیا جس کی شفاف تحقیقات کی جائیں تو کئی پردہ نشینوں کے نام سامنے آئینگے،ڈبلیو ڈبلیو ایف اور آئی سی یو این نے صوبے میں جنگلات کی بحالی کو تسلیم کیا ہے لیکن ایک ارب 18کروڑ پودوں کی شجرکاری کی تصدیق نہیں کی اور نہ ہی انہوں نے اس منصوبے کا مالیاتی آڈٹ کیا ہے، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بلین ٹری سونامی کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔

تازہ ترین