• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزادی کے بعد پاکستان کے اصل خالق معذرت خواہانہ رویہ پر مجبور ہوگئے، ڈاکٹر خالد مسعود

کراچی (اسٹاف رپورٹر)اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئر مین اور علوم اسلامی کے نامور عالم ڈاکٹر محمد خالد مسعود نے کہا کہ پاکستانی اب مذہبی ہم آہنگی کے بجائے رواداری کے لفظ کو زیادہ پسند کرنے لگے ہیں۔ یقیناً عدم برداشت ہمارابہت بڑا مسئلہ ہے،اس کی جڑیں تاریخ میں ہیں۔پاکستان میں ایک بڑا مستقل سوال شناخت کے حوالے سے رہاہےکیونکہ جو پاکستان کیلئے جدوجہد کررہے تھے ان کو مذہب سے نابلد قرار دیا گیا اور ان کی جدوجہد کی مخالفت کی گئی لیکن پاکستان بننے کے بعد انہی مخالفین نے کہا کہ یہ پاکستان تو ہمارا نظریہ تھا چنانچہ وہ اس کے خود مالک وخالق بن گئے اور اصل بنانے والے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ابتداً پاکستان ان معنوں میں قومی ریاست نہ بن سکا جن معنوں میں باقی دنیا میں قومی ریاستیں بن رہی تھیں۔ہم نے خود کو قومیت کے مغربی تصور سے توآزاد کرلیا لیکن مسلم قومیت کی تعریف نہیں کرپائے۔ان خیالات کا اظہا ر انہوں نے جامعہ کراچی کے پاکستان اسٹڈی سینٹر کے زیر اہتمام منعقدہ لیکچر بعنوان ’’پاکستان میں روادار معاشرے کے قیام کے تقاضے‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر خالد مسعود نے مزید کہا کہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ علمائے ہند تو ہندومسلم اتحاد کی بات یعنی سیکولر بات کرتے تھے پھر وہ اپنے ایجنڈے سے ہٹ گئے ۔ہم نے قومیت کی تعریف کرتے ہوئے زمین سے رشتہ قبول نہیں کیا لیکن مسلم اُمّہ کا تصور پسند کیا۔پاسپورٹ ویزے اور اقامے کی بندشوں نے ہمیں یہ رشتہ ماننے پر مجبور کردیاپھر قوانین جو علما کے بنائے ہوئے تھے ان کو شریعت کے نفاذ کیلئے لازمی سمجھتے ہوئے ریاست کے کردار کو بھی ہم نے تسلیم کرلیا۔تاہم ہم نے ہندومسلم تفریق کو مسلم قومیت کی بنیاد بنالیا۔علمی اختلاف سے اتنی بڑی خرابی پیدانہیں ہوتی کہ حل ہی نہ ہوسکے ۔ برصغیر کے اسلام میں اختلافات برداشت کرنے کی روایت رہی ہے ۔ اختلاف وتنوع اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے، اس سے علم وفکر کی ترقی ہوتی ہے۔ مذاہب کے اندر اگرچہ اختلاف موجود ہے لیکن آپ کسی ایک عقیدے کو مان لیںتاہم سیاسی بحرانوں میں یہی اختلاف انتہا پسندی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں مسجدوں ، مدرسوں ، خانقاہوں اور امام بارگاہوں پر حملے نائن الیون سے پہلے ہی شروع ہوچکے تھے ۔لیکچر کے اختتام پر ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر انورشاہین نےاظہار تشکر کیا۔
تازہ ترین