• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتساب کے معنی بازپرس، حساب کتاب، دیکھ بھال اور روک ٹو ک کے ہیں۔ عرفِ عام میں احتساب اس عمل کا نام ہے جو قوموں، ملکوں اور حکومتوں کو حق داروں کا حق پورا پورا ادا کرنے کی راہ پر گامزن رکھتا اور اس حق کو غصب کرنے کی راہ روکتا ہے۔ دین مبین میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ امیر المؤمنین عمر ؓ بن خطاب کا واقعہ بہت مشہور ہے کہ ایک بدو نے منبر پر کھڑے عمرؓ کی چادر پکڑ کر حساب مانگا اور رعب و دبدبے والے عمرؓ نہ چیں بہ جبیں ہوئے اور نہ غصے میں آئے بلکہ حساب دے کر بدو کو مطمئن کرنے کے بعد اپنا خطبہ شروع کیا۔ ثابت ہوا کہ حاکم پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ لوگوں کو مطمئن کرے خواہ یہ الزام اس کی ذات پر ہی کیوں نہ عائد کیا جائے۔ افسوس ہم صراط مستقیم سے بھٹک کر ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ کا چلن اپنا بیٹھے اور آج بدتر حالات سے دوچار ہیں۔ حکمران طبقات کی بدعنوانیوں کی داستانیں اتنی ہیں کہ سب کا احاطہ کرنے کو ایک دفتر درکار ہے۔ یہ وہ داستانیں ہیں جو میڈیا کی کاوشوں سے سامنے آئیں اور نجانے کتنی ہیں جن پر اخفا کا پردہ پڑا رہا۔ اس حوالے سے پاکستانی قوم کا یہ دیرینہ مطالبہ درست ہے کہ سب کا بے رحم احتساب کیا جائے تاکہ ملک اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکے۔ ایسا بھی نہیں کہ عوام کی طرف سے احتساب کے مطالبے پر عمل نہ کیا گیا تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جب بھی یہ عمل شروع ہوا متنازع بن گیا یا بنا دیا گیا۔ وہ لوگ جو حکومت میں نہ تھے یا حکومت مخالف تھے انہوں نے اس عمل کی شفافیت کو مشکوک قرار دیتے ہوئے حکومتی انتقام سے تعبیر کیا اور بعض معاملات بلاشبہ ایسے ہی تھے، خاص طور پر نوے کی دہائی میں ۔ یوں احتساب کے عمل کو ہی بے سود بنا کر رکھ دیا گیا۔ دنیا کی جن کامیاب جمہوریتوں کی ہم مثال دیتے ہیں بلکہ جن کے طرز جمہوریت کو ہم اپنائے ہوئے ہیں وہاں احتساب کا نظام انتہائی سخت اور قابل رشک ہے، وہ برطانیہ ہو یا امریکہ، کوئی شخص کتنا ہی بلند مرتبہ، طاقتور اور مقبول کیوں نہ ہو احتساب سے نہیں بچ سکتا۔ امریکی صدر نکسن کی مثال سب کے سامنے ہے ۔ واٹر گیٹ سکینڈل کے بعد انہیں مستعفی ہونا پڑا اور وہ عوامی نفرت کا بھی شکار ہوئے۔ ان ملکوں میں احتسابی عمل پر انگشت نمائی کی بھی کسی میں جرأت نہیں ہوتی کہ سبھی جانتے ہیں، ادارے مضبوط ہیں اور غیر جانبدار بھی۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ لندن میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے مابین ہونے والے میثاقِ جمہوریت میں ایسا ہی ایک مضبوط اور غیرجانبدار احتسابی ادارہ بنانے پر بھی اتفاق ہوا تھا جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ ملک کی سیاسی جماعتیں اگر اپنے اپنے سیاسی مفادات کے تحت ایسا نہ کر سکیں تو اس کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے اور اب انہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ اداروں کے بارے میں اپنے تحفظات کی گردان کرتی رہیں۔ اب انہیں اداروں کا معاون ہونا چاہئے اور خاص طور پر نیب کا کہ اس کے سربراہ کا تعین اتفاق رائے سے کیا گیا ہے۔ افسوسناک امر چیئرمین نیب کا جمعرات کے روز دیا جانے والا بیان ہے کہ جمہوریت کے خلاف نیب کوئی سازش نہیں کر رہا، انتقام لیا نہ لیں گے لہٰذا اسے سیاسی نہ بنائیں، پنجاب کے بعض ادارے تعاون نہیں کر رہے، انہوں نے آخری وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ اب تک مسکرا کر برداشت کیا اب نہیں کریں گے۔ بیورو کریسی کسی شخص کے اشاروں پر نہیں ناچ سکتی، سوال کریں تو کہتے ہیں سازش ہو رہی ہے۔ ہم کسی سازش کا حصہ نہیں، ملک 90کھرب کا مقروض ہے، نظر نہیں آتا کہ یہ پیسے کہاں خرچ ہوئے۔ غلط احکامات دینے اور ان پر کام کرنے والوں کا مکمل احتساب ہو گا۔ چیئرمین نیب نے اپنا فی الضمیر کھل کر بیان کر دیا ہے جو اس امر کا عکاس ہے کہ ان کا مطمح نظر محض شفاف احتساب ہے اور اس ضمن میں وہ کسی دبائو کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ پاکستان کے لئے نیک شگون ہو گا البتہ ان کے کام میں شفافیت نظر آنی چاہئے تاکہ کوئی بھی اسے انتقامی کارروائی پر محمول نہ کر سکے۔ وطن عزیز کو بدعنوانی سے پاک کرنا ہے تو احتساب کو ایک مضبوط، شفاف اور غیرجانبدار عمل بنانا ہو گا۔

تازہ ترین