• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں جمہوری عمل کے تسلسل کو جو خطرات پچھلے کچھ عرصے سے محسوس کیے جا رہے تھے ان خطرات کو بلوچستان اسمبلی میں آنے والی تبدیلی نے مزید تقویت پہنچائی ہے۔سیاسی مبصروں کا یہ خیال ہے کہ بلوچستان حکومت میں تبدیلی کسی نیچرل عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ریاستی اداروں کی اسی پالیسی کا تسلسل ہے جو پچھلے 70سال سے جمہوری قوتوں کو زیر رکھنے کیلئے دہرائی جاتی رہی ہے۔ویسے توبلوچستان میں نظریاتی وابستگیاں خال خال ہی دیکھنے میں آتی ہیں لیکن جس انداز سے یہ تبدیلی لائی گئی کہ راتوں رات حکومتی جماعت کے 21اراکین نے اپنی سیاسی وفاداریاںتبدیل کر لیں اس کی مثال پاکستانی سیاسی تاریخ میںکم ہی ملتی ہے۔پنجاب میں طاہر القادری کی قیادت میں جس تحریک کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی جارہی تھی جس میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے بھی اپنا اپنا حصہ ڈالا تھا وہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ تحریک لبیک اور پیر حمیدالدین سیالوی کے جوش و خروش کو دیکھ کر تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ کوئٹہ سے لے کر لاہور تک کی اس شورش کے تانے بانے آپس میں ملے ہوئے ہیں۔سونے پہ سہاگہ کہ متوسط طبقے کے سینیٹر کو توہین عدالت کے جرم میں دی گئی جیل کی سزا نے اداروں کے درمیان جاری سرد جنگ کومزید واضح کر دیا ہے۔ بلوچستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں سیاسی عمل کو شروع سے ہی نقصان پہنچایا جاتا رہا ہے ۔بھٹو نے بلوچستان میں نیپ کی حکومت کو معطل کرکے ایک غیر جمہوری عمل کی بنیاد ڈالی جس سے وہاں کے عوام میں محرومی کے احساسات نے جنم لیا۔پھر پرویز مشرف کے اکبر بگٹی کو قتل کرنے نے جلتی پر تیل کے مترادف کام کیااور علیحدگی پسندوں کا بیانیہ عوام میں بغیر کسی رکاوٹ کے مقبول ہونے لگالیکن اب جومنصوبہ بنایا جا رہا ہے کہ ن لیگ کو بلوچستان سے کسی بھی صورت سینیٹ کی کوئی سیٹ حاصل نہ کرنے دی جائے یہ جمہوریت کیلئے کوئی نیک شگون نہیں ہوگا۔ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہم نے 70 سالوں میں اپنی غلطیوں سے کچھ بھی نہیں سیکھا ۔خاص طور پر مشرقی پاکستان سے علیحدگی کے اسباب کے بارے میں آج تک کسی نے سنجیدگی سے نہ صرف کبھی غور نہیں کیا بلکہ اس سلسلے میں ہونے والی تحقیقات کو بھی کبھی منظرِ عام پر نہیں لایا گیاتاکہ عوام یہ جان سکیں کہ ہمارے کن کن اداروں نے کیا کیا غلطیاں کیں۔تاکہ قوم آئندہ ان غلطیوں کے تدارک کو اپنے قومی بیانیے کا حصہ بناسکے ۔اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے اندازے کے برخلاف نواز شریف مقابلے پر ڈٹ گئے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنا سب کچھ دائو پر لگانے کو تیار ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ نوازشریف شاید ان منظم قوتوں کا مقابلہ نہ کرسکیں ،لیکن اگر جمہوری عمل کو چلنے دیا گیا اور نوازشریف کو سیاست سے باہربھی کردیا گیا پھر بھی مستقبل میں یہ مزاحمت پاکستان کی جمہوری اور سیاسی تاریخ میں دورس نتائج کی حامل ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہمیشہ کیلئے ہی ختم ہوجائے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس وقت کیا جا رہا ہے جب بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی تحریک اپنے زوروں پر ہے ۔ اگر اس عمل سے جمہوری تسلسل کے عمل میں کوئی رخنہ ڈالا گیا اور مصنوعی عوامی مینڈیٹ کو تھوپنے کی کوشش کی گئی تو یہ پاکستان کے وفاق کیلئے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔ آج ہمیں اس حقیقت کو مکمل طورپر تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے جس میں مختلف قومیں اپنی زبان ،ثقافت ،تاریخ اور سرزمین کے ساتھ صدیوں سے آباد چلی آرہیں ہیں۔ گو کہ ہر وفاق وقت کے ساتھ ساتھ ارتقاپذیر ہوتا ہے لیکن جمہوریت اور دستوری تسلسل میںرخنہ اندازی نے پاکستان میں وفاقیت کے تسلسل کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ آج مواصلاتی اور رابطہ کاری کی ٹیکنالوجی کے ہونے کے باوجود پاکستان میں رہنے والی مختلف قومیں سیاسی طور پر ایک دوسرے کے قریب نہیں آسکیں۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ستر سال گزرنے کے باوجود بھی جمہوری طرز حکومت اپنی جڑیں سماج میں پیوسست نہیں کرسکی۔وفاقی نظام کیلئے ایک لازمی امر یہ ہے کہ آبادی کے بڑے خطے کو مجموعی ملک کے ساتھ اس طرح پیوست کیا جائے کہ محکوم قوموں کو نہ صرف احساس شناخت ملے بلکہ ریاست اور اس میں رہنے والوں کے درمیان ایک ایسا رشتہ پیدا ہو جیسا ماں اور بچوں کے درمیان ہوتا ہے ۔ یہ کہ پاکستان ایک قوم کا نام ہے جس کا پرچار پچھلی سات دہائیوں سے پورے زور وشور سے کیے جانے کے باوجود آج بھی لاہور ،تربت ،سوات اور میر پورخاص کے باشندوں میں کوئی قدرمشترک نہیں ہے۔ نہ زبان ، نہ ثقافت ،نہ تمدن ،نہ علاقائی ترقی میں ہمواری اور نہ ہی قانون کی حکمرانی۔اگر کچھ مشترک ہے تو ان اشرافیائی حکمرانوں کا ٹولہ جو صرف اپنی شکلیں بدلتے ہیں۔کیونکہ اس ٹولے کے دونوں پائوں زمین پر نہیں ہیں اس لیے یہ ٹولہ کبھی غاصبوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات نہیں کرسکتا اور یاد رہے کہ ایسا ٹولہ کبھی سماجی تبدیلی کا محرک نہیں بن سکتا۔ایسے غیر جمہوری معاشرے وقت کے ساتھ ناکام اور باعث ندامت بنتے چلے جاتے ہیں۔تاریخ میں بہت سے وفاقی ممالک کے ناکام ہونے کی وجہ کمزور جمہوریت اور وفاق میں شامل مختلف اکائیوں کے درمیان شدید عدم توازن دیکھا گیاہے۔یاد رہے کہ مقامی یا علاقائی شناختیں قومی شناخت سے زیادہ طاقتور ہوتی ہیںاس کے ساتھ ساتھ مشرقی اور مغربی پاکستان کی علیحدگی کو علاقائی عدم توازن نے شدید تقویت پہنچائی ۔لیکن اس کے باوجود ہم نے اپنی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ۔
یاد رہے کہ ہماری وفاقی اکائیوں کی کوئی مشترکہ تاریخ نہیں ہے اور اس وفاق میں شامل قوموں کے درمیان مشترکہ شناخت کا احساس بھی بہت کمزور ہے ان حالات میں بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو مزید سیاسی قوت ملے گی۔چاہیے تو یہ تھا کہ اس وفاق میں شامل مختلف قومیں جوہزاروں سالوں سے اپنی زبان اور تہذیب کے ساتھ اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں انہیں اپنے وجود کے ساتھ نہ صرف تسلیم کیا جاتا بلکہ انہیں ان کی شناخت کو قائم رکھنے میں مدد بھی کی جاتی۔ پاکستان انہی شناختی اکائیوں کو ایک لڑی میں پرونے کا نام ہے۔یہ ایسے چمن کی ماند ہے جس میں ہر پھول ایک مختلف خوشبو اور رنگ کے ساتھ جلوہ گر ہے اس باغ میں بہار صرف اس وقت آسکتی ہے جب ہر پھول اپنی خوشبو اور رنگ کے ساتھ نہ صرف پھلے پھولے بلکہ اس کی خوبصورتی و مہک میں مزید نکھار پیدا ہو۔ اس عمل کیلئے ضروری ہے کہ باغبان سب پھولوں کو ان کے انفرادی رنگوں کے ساتھ قبول کرے اور پروان چڑھائے۔اس چمن میں بہار کاآنا بھی باغبان کے جمالیاتی ذوق کا آئینہ دار ہوگا۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے !
خود اپنے ہی باطن سے ابھرتا ہے وہ موسم
جو رنگ بچھا دیتا ہے تتلی کے پروں پر

تازہ ترین