• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں ایسے دلچسپ حالات ہونے کے باوجود مجھ ایسے عام آدمی کے لئے کچھ فراغت تھی۔ میں نے سوچا وقت سے فائدہ اٹھایا جائے اور کچھ مطالعہ کرلیا جائے۔ اپنی چھوٹی سی اسٹڈی میں کتابوں کی تلاش میں آیا تو سامنے ہی دو کتابیں جنہیں میں بار بار پڑھ چکا ہوں، جیسے مجھ سے توجہ طلب کر رہی تھیں۔ ایک تو قرۃ العین حیدر کی ’’گردش رنگ چمن‘‘ اور دوسری شفیق الرحمٰن کی ’’حماقتیں‘‘ شفیق الرحمٰن صاحب نے ’’حماقتیں‘‘ کے بعد ’’مزید حماقتیں‘‘ بھی لکھی ہے لیکن چلیں آج ہم ’’حماقتیں‘‘سے ہی گزاراکرلیتے ہیں۔ صرف کتاب سے ہی نہیں بلکہ ہمارے سیاستدانوں اور اداروںکے بعض سربراہان کی وجہ سے بپا حماقتیں۔
آج کے حالات میں یہ جو خاص طور پر نواز شریف صاحب، عمران خان صاحب اور زرداری صاحب انقلاب لانے کے دعوے کررہے ہیں ایسے میں ’’حماقتیں‘‘پڑھناویسے ہی دل کے خوش رکھنے کو بہت مفید ہے۔ ویسے دل کے خوش رکھنے کو آج کل کے اخبارات پڑھنا یا پھر ٹی وی چینلز دیکھنا ہی کافی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو سوشل میڈیا نے طوفان بپا کیا ہوا ہے اس سے بھی دلچسپی کا سامان ہو جاتا ہے۔
پچھلے دنوں ایک انقلاب لانے کے لئے طاہر القادری صاحب نے اپوزیشن سیاسی پارٹیوں کو اکٹھا کیا تھا۔ مایوس کرنے والے جلسے کے بعد انہو ںنے آئندہ دو دنوں میں انتہائی سخت اقدامات کرنے کا وعدہ کیا لیکن ان کی ذات کے حوالے سے تو خاص طور پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔ وہ دوبارہ یورپ کے دورہ کا بہانہ کرکے رفوچکر ہوگئے۔ ان کے حوالے سے ضرار کھوڑو نے ایک دلچسپ ٹویٹ کی کہ طاہر القادری صاحب کے جلسوں میں بعض خواتین چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی ساتھ لے کر آتی ہیں اور ان بچوں کی تربیت ایسی اچھی ہوتی ہے کہ وہ روتے ہوئے بھی قادری قادری کی آوازیں نکالتے ہیں۔
طاہر القادری صاحب کے انقلاب کے حوالے سے یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہئے کہ جس ملک میں وہ انقلاب لانا چاہتے ہیں وہ اس کے شہری ہی نہیں۔ اپنے چند ہزار کارکنوں کو انقلاب کی آگ میں جھونک کر وہ کبھی کنٹینر پر جا بیٹھتے ہیں، کبھی مبارک ہو مبارک ہو کہہ کر سپریم کورٹ پہنچ جاتے ہیں اور پھر وہاں سے افتخار چوہدری کی ڈانٹ سن کر واپس کینیڈا بھاگ جاتے ہیں۔ کئی ماہ وہاں گزار کر دوبارہ ان کا ’’انقلاب‘ذ سر اٹھاتا ہے۔ وہ زرداری اور عمران سمیت کچھ اور پارٹیوں کو اکٹھا کرتے ہیں اور پھر دوبارہ رفوچکر ہو جاتے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ اسمبلی کے آپ ممبر نہیں، کسی بھی حلقے سے آپ منتخب نہیں ہوسکے، ووٹ بینک آپ کے پاس نہیں، سینیٹ کے ممبر نہیں بن سکتے تو پھر انقلاب کیا صرف ان چند ہزار غریب غربا طلبا کے ذریعے لائیں گے جو نجانے کن مجبوریوں کے تحت آپ کے مرید بنے ہیں۔ آپ ان کو مروائیں گے ہی ساتھ میں ملک میں سوائے اس کے کہ کچھ دن کا انتشار پھیلادیں اور کچھ نہیں کرسکتے۔ ان کے انقلاب کے اس غبارے میں اس بار ہوا تو اپوزیشن پارٹیوں نے بھری۔ پچھلی بار اس ہوا بھرنے میں چند اداروں کا ذکر بھی رہا لیکن سوچنے کی بات یہی ہے کہ ان کے انقلاب کے اس غبارے میں یہ ہوا کتنی دیر قائم رہے گی۔ ایک انقلاب عمران خان بھی لانا چاہ رہے تھے۔ ان کے انقلاب کے غبارے میں کس نے ہوا بھری؟ اس بار ےمیں عوام سب جانتے ہیں لیکن اب تو لگتا ہے جیسے یہ نعرہ ان کے لئے سانپ کےگلے میں چھچھوندر بن گیا ہے۔ نہ وہ اسے نگل سکتے ہیں نہ ہی اُگل سکتے ہیں۔
جوںجوںدن گزر رہے ہیں انہیں بھی شاید یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ ان کے نعروں میں جان نہیں رہی۔ ان کے انقلاب کی راہ میں شاید ہر بار ایک نئی شادی آجاتی ہے۔ رہی بات اگلے الیکشن میں کامیابی کی، تو وہ شاید اگلے الیکشن میں بھی انہیں خاطرخواہ کامیابی نہ مل سکے۔
ویسے آج کل انقلاب کے ایک داعی نواز شریف بھی ہیں لیکن نامعلوم وہ یہ کیوںبھول جاتے ہیں کہ انقلاب یا تو جاگیرداری نظام کے خلاف آتے ہیں یا سرمایہ دارانہ نظام کے اور یا پھر بہت ہی بدعنوان اشرافیہ کے جو قوم کو معاشی اور معاشرتی بدحالی کے پاتال میں دھکیل دیتی ہے ۔انقلابات زمانہ نے بہت قربانیاں دیکھی ہیں۔ روس میں لینن کے آنے تک نجانے کتنے سولی پر چڑھ گئے تھے۔ چیانگ کائی شیک کے خلاف لانگ مارچ میں مائو کے نجانے کتنے حامی جان کی بازی ہارے اور پھر انقلاب ہوتا کیا ہے؟ چند دن لوگوں کو سڑکوں پر گھما پھرا کر مہم جوئی کرنا؟ انقلاب معاشی اور سماجی ڈھانچے کو یکسر بدل دینے کا نام ہے اور یہ تبدیلی عوام کے بہترین مفاد میں ہوتی ہے۔ اس تبدیلی کو عمل میں لانے کیلئے عوام کی بھرپور تائید اخلاقی طور پر ضرور چاہئے ہوتی ہے ورنہ خانہ جنگی اور بربادی ہی مقدر بن جاتی ہے۔ منافقت اور جھوٹ دراصل ہماری رگ و پے میں سرایت کر گیا ہے اور ہم من حیث القوم بھی خود سے جھوٹ بولتے ہیں۔
ضیاء الحق کے انقلاب میں ولی خان کہا کرتے تھے کہ ’’تم افغانستان بارود بھیجو گے تو وہاں سے پھول نہیں آئیں گے‘‘ اس وقت ہم نے ایسے فرمودات پر کان نہ دھرے اور آج جب یہ عفریت گھر میں گھس آیا ہے تو گومگو کا شکار ہیں کہ اسے کیا نام دیں۔ تزویراتی اثاثہ کہیں یا غیر ریاستی اور غیر ملکی برے طالبان کی جارحیت؟ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کریں یا ان میں پھوٹ ڈلوا کر آپس میں لڑوا دیں؟ ہم دہشت گردی کے واقعات پر کف افسوس بھی ملتے ہیں اور اس امر پر سوال کرنے سے بھی کتراتے ہیں کہ کالعدم تنظیموں کے لوگ ملک میں جلسے بھی کر رہے ہیں۔ ہم امریکہ اور بھارت کے مذموم عزائم کا رونا بھی روتے ہیں لیکن ایک مخصوص مذہبی فرقے کے خلاف طاقت کے استعمال اور مجرمانہ ریاستی خاموشی پر دم سادھے بھی رہتے ہیں۔ ہم اپنے لئے انصاف کے خواہاں بھی ہیں لیکن اس امر پر خاموش بھی کہ آخر عدالتوں سے 2000دہشت گردوں کی بریت اور ان 2000 میں سے 700کا دوبارہ کالعدم تنظیموں میں شامل ہونا ہماری کمزوری ہے یا بھارتی اور امریکی چالبازی؟ ایک طرف تو ہم کاشغر سے گوادر تک ریل اور روڈ لنک بننے پر روزگار کے خواب دیکھتے ہیں اور دوسری طرف نواز شریف کی طرف سے نریندر مودی کی ماں کو ساڑھی بھیجنے کو ان کی کمزوری گردانتے ہیں کیونکہ مودی نے تو ہمیں کہا تھا کہ دہشت گردی کا راستہ روکیں تاکہ آئندہ ممبئی حملے جیسے واقعات نہ ہوں۔
ہم اپنی اقدار و روایات میں بھی حد درجہ منافقت سے کام لیتے ہیں یعنی ایک طرف تو غیر ملکی ڈراموں کو بند کروانا چاہتے ہیں کہ وہ ہماری ثقافتی اقدار کے خلاف ہیں اور دوسری طرف اینٹیں مار مار کر پسند کی شادی کرنے والی کو مار ڈالتے ہیں۔ ہم امریکہ اور یورپ کی بربادی کی دعائیں بھی مانگتے ہیں اور وہاں کا ویزہ نہ ملے تو جہاز کے پروں پر بیٹھ کر بھی وہاں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں لوگ اپنی جان بھی گنوا بیٹھے ہیں۔ نجانے اپنی ایسی منافقانہ روایات کے ساتھ ہم کونسی منزل پہ پہنچنا چاہتے ہیں۔ ایسے عوام کے ساتھ کوئی خاک انقلاب لائے گا۔

تازہ ترین