• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عاصمہ جہانگیر تاریکی کیخلاف مزاحمت، دکھی کا مرحم، مضبوط حصار

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ)معروف قانون دان ، سینئر وکیل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر مختلف طبقہ ہائے فکر کی جانب سے گہرے دکھ ، افسوس اور تعزیت کا اظہار کیا جارہا ہے، ماہرین کا کہنا تھا کہ عاصمہ جہانگیر تاریکی کیخلاف مزاحمت، دکھی کا مرحم، مضبوط حصار تھیں، سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ زندگی میں بڑا عمل دخل تھا، رانا جواد کا کہناتھا کہ جدوجہد کا سمبل، ججز کے حوالے سے جوباتیں کیں کسی میں ہمت نہ تھی، سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اکیلی تھیں لیکن پورا معاشرہ عاصمہ لگتا تھا، پتہ نہیں کون اب آگے بڑھےگا، شاید خلا کبھی پر نہ ہو۔ بابر اعوان، شیخ رشید، سلیم صافی، مظہر عباس، امتیاز عالم، افراسیاب خٹک، مریم اورنگزیب، طلعت حسین و دیگر نے بھی ؑاصمہ جہانگیر کے حوالے سے تہنیتی گفتگو کی۔سینئر تجزیہ کار اور صحافی ، جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک کے میزبان حامد میر نے عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر اپنے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے عاصمہ جہانگیر کے انتقال کی خبر پر یقین نہیں آرہا ہے،کل ہی میری ان سے بات ہوئی تھی ، مجھے یاد ہے میں جب کالج اسٹوڈنٹس تھا ضیاء الحق دور میں تو مال روڈ پر ایک جلوس تھا جس میں میں بطور طالب علم شریک تھا جس پر مجھے مار بھی پڑی تھی اور مقدمہ ہوا تھاتو میرا مقدمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ نے مفت لڑاتھا۔ عاصمہ جہانگیر کا نام پاکستان کی تحریک کے حوالے سے بھی بڑی انفرادی اہمیت کا حامل ہے۔جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں انہوں نے ایک پٹیشن فائل کی تھی جس کا فیصلہ آج بھی عاصمہ گیلانی کیس کے حوالے سے مشہور ہے ۔ عاصمہ جہانگیر کی خواتین کے حقوق کے لئے کی گئی جدوجہد بھی ناقابل فراموش ہے۔انسانی حقوق کے حوالے سے ان کے موقف سے سب ہی آگاہ ہیں ، وہ پچھلے سال یونائٹیڈ نیشن کے رپورٹر کی حیثیت سے سری نگر گئی تھیں اور واپس آکر انہوں نے وہاں پر ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھرپور انداز میں آواز اٹھائی تھی ۔ حال ہی میں چیف جسٹس آف پاکستان نے جب صحافی یونینز کو سپریم کورٹ رجسٹری لاہور طلب کیا تھا تو اس وقت انہوں نے پاکستان یونین آف جرنلسٹ کی جانب سے کیس لڑنے کا اظہار کیا تھا۔سینئرقانون دان سلمان اکرم راجہ نے عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی شخص جو انسانی حقوق ، قانون سے وابستہ ہے اس کی زندگی میں عاصمہ جہانگیر کا ایک بہت بڑا عمل دخل ہے جس میں میں بھی شامل ہوں اور ہم سب ہی چاہتے تھے کہ اس ملک میں جو تاریکی ہے اس کے خلاف مزاحمت کی جائے ، میں نے اپنی زندگی میں ان سے زیادہ باہمت اور بہادر شخص نہیں دیکھا ۔ ان پر الزام تراشی بھی ہوئی ، دھمکیاں بھی دی گئیں لیکن وہ کبھی ڈریں نہیں ہر ایک دکھی کے لئے ان کا دامن موجود تھا ان کے چلے جانے سے جو ایک مضبوط حصار ہمارے ساتھ تھا وہ اب نہیں رہا ۔ ڈائریکٹر جیو نیوز رانا جواد نے عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے لئے انتہائی اندوہناک خبر ہے ، وہ سمبل تھی جدوجہد تھا ، یہ وہ شخصیت تھیں جن کی رہنمائی کی ہر وقت ہی ضرورت رہتی تھی پاکستان کے اندر جو قانون کی حکمرانی کی جنگ ہے اس میں سب سے زیادہ کردار عاصمہ جہانگیر کا ہے ان کے کارنامے او ران کی جدوجہد کو میں نہیں سمجھتا کہ کوئی تحریر میں لاسکتا ہے ،کوئی فقروں میں سموسکتا ہے جب جرنلزم ہم نے شروع کیا تھا اس وقت سے لے کر عاصمہ جہانگیر ایک ایسا نام تھا جس پر آپ بھروسہ کرتے تھے ۔ آج بھی پاکستان کے اندر جو آئینی ، سیاسی ، سماجی ، قانونی ، انسانی حقوق سے متعلق مسائل ہیں ان کے حل کرنے میں عاصمہ جہانگیر سے بڑا نام کوئی اور نہیں تھا ۔ ان کے اندر جو نڈر پن تھا وہ صحیح بات کرنے کا حوصلہ دیتا تھا ۔ ہوسکتا ہے کوئی ضرور ایسا ہوگا پاکستان میں لیکن عاصمہ جہانگیر کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا ۔ دنیا ان کی معترف تھی کہ وہ انسانی حقوق کی چیمپئن تھیں ان کے انتقال سے دل ٹوٹا ہے اور حوصلے کم ہوئے ہیں اب کون ہمیں بتائے گا کہ اس ملک میں خرابی کی جڑ کیاہے ، کون ہے جو بولے گا کیونکہ یہاں تو لوگ ڈر جاتے ہیں ۔ عاصمہ جہانگیر نے عملی طو رپر کام کیا اور ثابت کیا کہ ان کی فلاسفی کسی ایسی چیز کی محتاج نہیں جس سے ان کو ذاتی فائدہ ہو ان کی فلاسفی عوام کی بھلائی کے لئے تھی ،پچھلے دو سال سے اس ملک میں جو کشمکش جاری ہے اس میں ان کی آواز ا ن کو منفرد کرتی تھی ان لوگوں سے جو وقتی فائدے کے لئے اپنی سوچ کو کمپرومائز کرتے تھے ۔پاکستان کو کتنا بڑا نقصان ہوا ہے اس کو ہم کو محسو س کرنے میں کچھ دن ، کچھ ہفتے ، کچھ مہینے ، کچھ سال لگیں گے ۔ جب میڈیا پر برا وقت آیا یا سیاسی حالات خراب ہوئے تو انہوں نے اس آواز کو بلندکیا جو کہ انسانی حقوق کے عالمی تصور کے قریب ترین ہے ۔ اگر کہیں بات آئی ججز کے سسٹم کی تو ججز کے حوالے سے ا نہوں نے وہ باتیں کیں جو کہ کسی میں ہمت نہ تھی ۔ اگر اس ملک میں سول اور ملٹری تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے چینی ، افراتفری اور خرابی کی بات ہوئی تو ہمیشہ عاصمہ جہانگیر نے ببانگ دہل بات کی ۔ وہ کھل کر بات کرتی تھیں جس کا ان کو خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا تھا ۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ عاصمہ جہانگیر غیر متوقع طور پر ایسا موقف اپناتی تھیں جو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا پاکستان میں ، انہوں نے جب غیرت کے نام پر قتل کے خلاف آواز بلند کی اس وقت پاکستان کے 80 فیصد لوگ اس کو روایات کا حصہ سمجھتے تھے ،جب انہوں نے خواتین کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی تو اس کو مغربیت سمجھا جاتا تھا ۔ انہوں نے جس چیز پر بھی آواز اٹھائی وہ بڑی حیران کن اور پاکستان کو ترقی دینے والا تھا ۔ انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ کا حوالہ بھی دیا کہ Only men the Pakistan pass away no one can equal asma jhangeer ، انہوں نے کہا کہ میرے اس ٹوئٹ میں Men کو بہادری سے تشبیہہ دی گئی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنے کمزور وقت میں ان کی طرف دیکھتے تھے ان سے رہنمائی لیتے تھے وہ صحافیوں ، شاعروں سے ، ادیبوں سے ہر ایک سے محبت کرتی تھیں اور کسی کا بھی کوئی معاملہ ہوتا تھا سب سے آگے آکر خود کھڑی ہوجاتی تھیں ، لاہور کے صحافیوں کا ، وکیلوں کا وہ بہت بڑا سہارا تھیں کسی بھی مشکل وقت میں وہ اکیلا نہیں چھوڑتی تھیں وہ تھیں تو اکیلی لیکن لگتا ایسا تھا کہ پورا معاشرہ جو ہے وہ عاصمہ جہانگیر کی شکل میں موجود ہے ۔ اب پتہ نہیں کون ان کی روایات کو لے کر چلے مجھے نہیں لگتا کہ یہ خلا ایسا ہے جو بھر سکے ۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ ان کی ذاتی دوست اور عاصمہ جہانگیر کی مداح تھیں دنیا کے بڑے بڑے لیڈر اور ادارے عاصمہ جہانگیر کے اسٹیٹس کو انڈر اسٹینڈ کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے دنیا بھر میں حق کی آواز بلندکی ہے ،کشمیرکے مظالم پر ان کی رپورٹ ساری دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے ۔ قانون دان بابر اعوان کا کہنا تھا کہ میری ان سے انتہائی قریبی یادیں وابستہ ہیں میں نے ہی ان کے قریبی دوستوں کو بلا کر ان سے کہا تھا کہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کو سپریم کورٹ بار کے صدر کے لئے کھڑا ہونا چاہئے او راتفاق ہونے کے بعد میں نے ان سے ٹیلی فون پر بات کی مگر وہ منع کررہی تھیں تاہم ہمارا اصرار تھا کہ آپ ہی وہ منفرد آواز ہیں جو حق کو بلند کرسکتی ہے او ربہت اصرار کے بعد انہوں نے اس بات کو قبول کیا کہ وہ صدر سپریم کورٹ بارکے عہدے کے لئے الیکشن لڑیں گی ۔شہید بی بی بے نظیر کے بعد وہ پاکستان میں ایک ایسی آواز تھیں ، ایک آئیکون تھی خواتین کے حقوق کی جدوجہد کا ۔ ان کا اپنے سوچنے کا انداز تھا او رجس بات کو وہ سمجھتی کہ وہ درست ہے ان کے نکتہ نظر سے تو اس پر وہ ڈٹ جایا کرتی تھیں ۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اصولی اختلاف پاور فل جگہ پر ہوکر کھڑے ہوکر کرتے ہیں عاصمہ جہانگیر نے ہمیشہ ججز ، عدلیہ کے ساتھ اصولی طور پر کورٹ کے سامنے کھڑے ہوکر اختلاف کیا ،پاکستان میں مزاحمتی سیاست کی آوازیں کم ہوتی جارہی ہیں عاصمہ جہانگیر وہ آواز تھیں جس کو لمبے عرصے کے لئے یاد رکھا جائے گا ۔ عدل کے اداروں کو بھی ان کی کمی بہت لمبے عرصے تک محسوس ہوتی رہے گی ۔ ان کی خواہش تھی کہ لوگوں کی زندگی پاکستان میں سنور جائے ، لوگوں کے لئے زندگی میں آسانیاں ہوں ۔ رہنما عوامی نیشنل پارٹی زاہد خان کا کہنا تھا کہ انتہائی نڈر او ربہادر خاتون جنہوں نے دنیا بھر میں جہاں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی اس کے خلاف آواز اٹھائی ۔ وہ تو پاکستان میں بھی جتنے بھی ڈکٹیٹر اور غاصب تھے ان کے آگے کھڑی ہوتی تھیں یہ پاکستان کی عوام کا ایک بہت بڑا نقصان ہے او ران کی اس جگہ کو کوئی نہیں بھر سکے گا ۔ سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید کا کہنا تھا عاصمہ جہانگیر پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے ایک بہت بڑا نام تھا ، ان کے والد بھی اسی طرح کی سوچ رکھتے تھے میں نے ان کے والد کے ساتھ بھی کام کیا ہے ان کے والد چوہدری ظہور الٰہی کے گہرے دوست تھے ۔عاصمہ جہانگیر نے ججز بحالی میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا ہے ، وکلا کی سیاست میں وہ ہمیشہ آگے سے آگے رہی ہیں جمہوریت اور اپنا مطمع نظر پیش کرنے کے لئے انہوں نے ہمیشہ بلا خطراور بلاجھجھک اپنی بات کا اظہار کیا ہے ۔ سینئر قانون دان حامد خان کا اس افسوسناک خبر پر کہنا تھا انہوں نے ہمیشہ بنیادی حقوق اورشہری آزادیوں کے لئے کام کیا ہے ، ہر تحریک میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہیں خاص کر خواتین کے حقوق کے لئے ۔ میں نے ان کے ساتھ بہت ساری موومنٹ بالخصوص ڈکٹیٹرز کے خلاف موومنٹ میں اکھٹے کام کیا ہے ۔ان کو میں نے بہت بہادر اور نڈر خاتون پایا ہے ۔ سینئر صحافی سلیم صافی نے اپنے افسوس کا اظہار ان الفاظ سے کیا جن خبروں سے صدمہ پہنچتا ہے عاصمہ جہانگیر کے انتقال کی خبر بھی صدمہ پہنچانے والی خبرہے، میں نے پاکستان میں مرد ہو یا خاتون کسی کو بھی اس بہادری سے اپنی رائے کا اظہار کرتے نہیں دیکھا ہے جس طرح سے عاصمہ جہانگیر کیا کرتی تھیں ، عاصمہ جہانگیر تمام تعصبات سے بالاتر تھیں ان کو خواہ کوئی سیاسی پارٹی ہو یا ادارہ اگر اس کی بات بری لگی تو اس کی پکڑ ضرور کی ۔ اور اسی طرح کوئی ادارہ ہو یا سیاسی جماعت اس کے ساتھ زیادتی ہوئی تو وہاں بھی ان کو اس کے ساتھ کھڑے ہوئے پایا ۔ ان کی اصول پرستی او رانسانی دوستی A cross the board تھی ۔ ان سے مجھے نظریاتی اختلا ف تھا جس پر میں نے کالم بھی لکھا ۔ لیکن ان کی خاصیت یہ تھی کہ وہ ہمیشہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر بولیں خواہ وہ کسی بھی طرف سے ہوئی ہو ۔ اس وقت ہمیں عاصمہ جہانگیر کی زیادتی ضرورت تھی اور ایسے وقت میں وہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم میں سے مردوں میں سے ، ہماری خواتین میں سے ، ہمارے وکلاء میں سے ہمارے سیاستدانوں میں سے کیا کوئی ایسا دوسرا ہوگا جو ان کے نقش قدم پر چل کے تمام تعصبات ، تمام گروہ بندیوں سے بالاتر ہوکر اصول اور میرٹ کی خاطر موقف اپنالے او ر اس کے لئے قربانی بھی دے ۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا تھا میرا تو ان کے ساتھ ایک طویل تعلق رہا ہے جس طریقے سے عاصمہ جہانگیر نے پاکستان کے میڈیا ورکرز کو سپورٹ کیا ہے اب ان کی موت میڈیا انڈسٹری کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ ویج بورڈ کیس میں جب اعتزاز احسن اچانک ودڈرا کرگئے تھے ہماری وکالت سے تو اس وقت عاصمہ جہانگیر نے وہ کیس لڑا اور عابد حسن منٹو نے بھی وہ کیس لڑا اوروہ کیس ہم جیتے بھی تھے ۔ انہوں نے کبھی اس چیز کو نہیں دیکھا کہ وہ کس کے لئے پوزیشن لے رہی ہیں انہوں نے پوزیشن کو دیکھا کہ وہ پوزیشن اسٹینڈ لینے کے لئے یا نہیں ہے ۔ تجزیہ کار امتیاز عالم نے کہا کہ یہ ایک بہت بڑا صدمہ او ردھچکا ہے ، وہ پاکستان کے ہر طبقے کا کرب لے کر میدان میں اتریں اور ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ وہ ہر مارشل لاء کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہوئیں اور جمہوری آزادی کے لئے لڑیں ۔ مذہبی انتہا پسند ان کے خون کے پیاسے تھے ان کو دھمکیاں ملا کرتی تھیں لیکن وہ کبھی نہیں ڈریں ۔ وہ انتہائی سیکولر ، انسان دوست تھیں ۔سو ل ملٹری تعلقات میں سول بالادستی کے لئے لڑتی رہی ہیں وہ ،جمہوریت ، آئین کی بالادستی ، قانون کی حکمرانی کے لئے لڑتی رہی ہیں وہ ۔ عاصمہ جہانگیر حق کی آواز تھیں ۔ اے این پی رہنما افراسیاب خٹک کا کہنا تھا انتہائی غم میں ڈوبی خبر ہے اس پر کچھ کہنا بھی مشکل ہورہا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ پوری قوم کا نقصان ہے ۔ ابھی جو پختون محسود قوم نے دھرنا دیا تھا اس میں یہ آئی تھیں اور ہمارے لئے بولی تھیں ۔ وزیر مملکت اطلاعات مریم اورنگ زیب کا کہنا تھا میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس پر کچھ کہہ سکوں ۔ کسی بھی چیز کی بات کرلیں خواہ وہ آئین کی بات ہو ، قانون کی بات ہو یا جمہوریت کی سربلندی کی بات ہو ۔ ان کی پوری زندگی کا خلاصہ مظالم کے خلاف او رمظلوموں کے حق میں لڑتے ہوئے گزر گیا ۔ اور آج پورا پاکستان اشک بار ہے ۔ ان کی خدمات کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے ۔ چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ میں اس وقت سخت صدمے میں ہوں جس کو بیان کرنا مشکل ہے میری بہت اچھی دوست اور میری لیڈر تھیں ہر موقع پر انہوں نے میرا دفاع کیا ،جب بھی میں تکلیف میں آ یا وہ میرے ساتھ کھڑی رہیں ۔ ان کی جو خدمات ہیں وہ کسی صورت الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتیں ۔ انہوں نے ہمیشہ سچ بولا ، ججز کے ساتھ ، وکلا کے ساتھ ہمیشہ کھڑی رہیں ۔ ان کی خدمات کو نہیں بھلایا جاسکتا ، پاکستان میں عاصمہ جہانگیر ایک ہی پیدا ہوئی ہیں ۔ معروف قانون دان اور رہنما پیپلز پارٹی اعتزاز احسن کا کہنا تھا انتہائی افسوسناک خبر ہے جس کا یقین کرنا بھی مشکل ہے بہت دلیر خاتون تھیں ، غریب اور نادار لوگوں کے لئے ان کا دل ہی نہیں ڈھڑکتا تھا بلکہ سارا جسم ہی تڑپتا تھا ۔ میں نے اور عاصمہ نے اکھٹے پولیس کی ماریں بھی کھائی ہیں ۔ وکیل رہنما اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ عاصمہ جہانگیر اپنے آخری وقت میں ان سے فون پر گفتگو کررہی تھیں کہ دوران گفتگو اچانک ہی فون گرنے اور چیخ کی آواز سنائی دی بعد میں پندرہ ، بیس منٹ ٹرائی کرتا رہا لیکن کسی نے فون اٹینڈ نہ کیا بعد ازاں جب فون اٹینڈ کیا گیا تو بتایا گیا کہ عاصمہ جہانگیر کو دل کا دورہ پڑا ہے او روہ اسپتال لے جائی گئی ہیں ۔ سینئر صحافی اور اینکر پرسن طلعت حسین کا کہنا تھا عاصمہ جہانگیر ایک دن قبل میرے شو میں تھیں اور جس نے بھی وہ شو دیکھا ہوگا اس کو کسی طور پر بھی نہیں لگا ہوگا کہ وہ بیمار ہیں یا کمزور ہیں ۔ اسٹوڈیو میں ہم سے پہلے موجود تھیں او راسی طمطراق سے باتیں کی جو کہ ان کا طرہ امتیاز ہے ۔ جو لوگ کسی بڑے مقصد او راصول پر یقین رکھتے ہیں ان کا طور طریقہ ایسا ہی ہونا چاہئے جیسا عاصمہ جہانگیر کا تھا ۔ وہ کہتی تھیں کہ میں تمہارے شو میں آتی ہوں لیکن انتہائی کھل کر بات کرتی ہوں ایسا نہ ہو کہ تمہارا شو بند ہی نہ ہوجائے جس پر میں کہتا تھا کہ میں یہ وزن اٹھالوں گا جس پر وہ کہتی تھیں کہ ایسا نہ ہو کہ تمہارے مالکان ہی تم کو ناں بند کردیں کہنے کا مقصد یہ کہ اگر ان کو صحافت یا مالکان کی کوئی بات پسند نہ آتی تھی تو وہ اس پر بھی کھل کر بولتی تھیں ۔ ملک ریاض کا کہنا تھا وہ ایک آواز تھیں انسانی حقوق کی ان کے انتقال سے بہت بڑا نقصان ہوا ہے او راس نقصان کا ازالہ نہیں کیا جاسکتا ۔ سینئر سیاستدان راجہ ظفرالحق کا کہنا تھا پاکستان میں ہی کیا دنیا بھر میں ان کی عزت و احترام تھا ،مجھے ان پر فخر ہے ۔ یورپین پارلیمنٹ کے اجلاس تک میں ، میں نے خود دیکھا کہ ہر کوئی ان کو انتہائی عزت او راحترام کی نگاہ سے دیکھ رہا تھااو راس کی وجہ ان کی غیر معمولی جرات ، قابلیت ہے ۔

تازہ ترین