• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’لوٹ کھسوٹ، ضمیر فروشی اورووٹوں کی خریداری کی سیاست ملک کے مفاد کے منافی ہے اور اس کے خلاف جہاد کیا جانا چاہئے‘‘وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا یہ اظہار خیال بلاشبہ ایسی اصولی حقیقت کی نشان دہی ہے جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل میں گزشتہ روز قدرتی گیس کی فراہمی کے منصوبے کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں انہوں نے یہ برمحل سوال اٹھایا کہ صوبائی اسمبلی میں جس شخص کی جماعت کا ایک رکن بھی نہ ہو وہ سینیٹر کیسے منتخب ہوسکتا ہے۔ اس مقصد کیلئے اسے لامحالہ دوسری پارٹیوں کے ارکان اسمبلی کے ضمیروں کا سودا کرکے ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔ لیکن ووٹ خرید کر سینیٹر بننے والا ملک اور قوم کا وفادار کس طرح ہوسکتا اور عوام کے مفاد کیلئے کیونکر کام کرسکتا ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کا مختصر جائزہ بھی پیش کیا اور عوام کو دعوت دی کی وہ مسلم لیگ (ن) کی مخالف سیاسی جماعتوں کی صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا موازنہ ان کی جماعت کی حکومتوں کے کام سے کرکے فیصلہ کریں کہ انہیں ضمیروں کی منڈی سجانے اور گالیاں دینے والوں کو ووٹ دینا ہے یا کام کرنے والوں کو۔ وزیر اعظم نے ہارس ٹریڈنگ کی اخلاقی حیثیت کے بارے میں جو رائے ظاہر کی ہے اس سے وہ لوگ بھی انکار نہیں کرسکتے جو ضمیروں کی خرید و فروخت کے اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہیں۔ تاہم ہمارے معاشرے میں یہ خیال بھی عام ہے کہ سیاست میں کوئی اخلاقیات اور اصول نہیں ہوتے ۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگ سیاست کو مکر و فریب، دغا بازی اور جوڑ توڑ کا کھیل تصور کرتے ہیں ۔ اس پیمانے کے مطابق کامیاب سیاستداں وہ سمجھا جاتا ہے جو منصب اور اقتدار کے حصول کیلئے ہر گھٹیا سے گھٹیا ہتھکنڈا آزمانے کیلئے ہر وقت تیار رہتا ہو۔لیکن تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ ایک قطعی بے بنیاد تصور ہے۔ سیاست کے میدان میں بھی حقیقی معنوں میں وہی افراد کامیاب ہوتے اور عوام کی نگاہوں میں دائمی احترام اور مقبولیت کے مستحق ٹھہرتے ہیں جن کی سیاست اعلیٰ اخلاقی اقدار پر استوار ہوتی ہے۔ سیاست کے نام پر بازی گری کرنیوالے بعض اوقات عارضی طور پر عوام کو دھوکا دے کر کچھ وقتی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں لیکن آخرکار دائمی رسوائی اور ذلت ان کا مقدر بنتی ہے جبکہ اخلاقی برتری کے حامل سیاسی رہنما پائیدار کامیابیاں حاصل کرتے ہیں اور تاریخ میں اَمر ہوجاتے ہیں۔ پوری دنیا اور خود ہمارے ملک کی تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اپنی بے مثال دیانت داری، اصول پسندی، ایفائے عہد اور کھرے کردار ہی کی وجہ سے مسلمانان برصغیر کے غیر متنازع رہنما بنے اور ان ہی اوصاف کے بل پر حکومت برطانیہ اور کانگریس کا بیک وقت مقابلہ کرکے مسلمانوں کو قیام پاکستان کی بظاہر ناممکن الحصول منزل تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔ اس لیے خود سیاسی قائدین اور سیاسی جماعتوں کا اپنا مفاد اس میں ہے کہ سیاست کو اعلیٰ اخلاقی اقدار کے تابع رکھا جائے اور عوام کی نگاہ میں لازوال مقبولیت حاصل کی جائے۔پاکستان کے عوام کو بھی سات دہائیوں کے تجربات نے ماضی کے مقابلے میں یقینا زیادہ باشعور بنادیا ہے لہٰذاامید ہے کہ اس حقیقت کا ادراک اب ان کیلئے پہلے سے زیادہ آسان ہوگا کہ انتخابات میں ووٹوں کی شکل میں ضمیر خریدنے اور بیچنے والے دراصل پورے معاشرے کی تباہی کا سامان کرتے ہیں۔ اس طرح اقتدار کے مراکز تک ان لوگوں کے پہنچنے کی راہ ہموار ہوتی ہے جو اپنے ذاتی فائدوں کیلئے قوم اور وطن کے بڑے سے بڑے مفاد سے غداری کرسکتے ہیں۔پاکستانی قوم بار بار دیکھ چکی ہے کہ قومی وسائل ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آتے ہیں تو قومی خزانہ خالی ہونے لگتا ہے، سرکاری سودوں پر کمیشن کی شکل میں ان کی تجوریاں بھرنے لگتی ہیں اور سرکاری زمینوں پر بے روک ٹوک قبضوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اس لیے انتخابات میں ایسے لوگوں کا راستہ روکنا ملک و قوم اور عوام کے اپنے مفاد کیلئے ناگزیر ہے۔

تازہ ترین