• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کلام مجید کے بعد مثنوی مولانا رومیؒ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ آپ کا دل اس کے پڑھنے سے کبھی نہیں بھرتا۔ مثنوی مولانا روم ایک ضخیم کتاب ہے چھبیس ہزار سے زیادہ اشعار ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ نہایت سنہرے واقعات سے بھری ہوئی ہے بدقسمتی سے نوجوان نسل اب موبائل اور لیپ ٹاپ میں ایسی گم ہوگئی ہے کہ ہماری اعلیٰ ثقافت سے بے بہرہ ہوگئی ہے۔ مولانا کہ دل و دماغ میں بے ساختہ اشعار آتے جاتے تھے اور وہ تحریر کرلئے جاتے تھے اس طرح یہ ضخیم کتاب عالم وجود میں آئی۔
میں فرصت میں اکثر مثنوی، گلستان و بوستان وغیرہ کا مطالعہ کرتا ہوں اور دل و دماغ کو سکون ملتا ہے۔ آج آپ کی خدمت میں مثنوی میں سے ایک حکایت سلطان محمد خوارزم شاہ سے متعلق پیش کررہا ہوں۔ اردو ترجمہ جناب اسکوارڈرن لیڈر(ر)ولی الدین مرحوم نے کیا ہے جو ہمارے قابل قدر ایئر مارشل علی الدین کے والد محترم تھے۔
’’بہادر بزرگ محمد خوارزم شاہ (مرشدِ طریقت) جب سبزوار شہر (بدصفاتِ جسم) کی تباہی میں لگا تو اُس کے لشکروں نے ان کا محاصرہ کرلیا اور اس کے سپاہی دشمن کے قتل میں لگ گئے۔ شہریوں نے اس کے سامنے سجدہ کیا کہ امن ہو۔ ہمیں غلام بنالیا جائے۔ جان بخش دی جائے (مٹانے کی بجائے رُخ دے دیا جائے) جو بھی خراج اور جو بھی بدلہ آپ کو چاہئے وہ ہر موسم میں (فطرت سے ہم آہنگی میں) ہماری جانب سے آپ کے لئے بڑھ کر ہوگا۔ اے شیر طبیعت! ہماری جانیں آپ کی ملکیت ہیں۔ حُکم دے دیں کہ کچھ دن وہ ہماری امانت میں رہیں۔ اس نے کہا کہ تم جب تک ایک اُبوبکر (ایک فطرتی صدّیق صفت) میرے سامنے حاضر نہ کردو گے، اپنی جان مُجھ سے نہیں چھڑا سکتے۔ اے بگڑی ہوئی قوم (اے اپنی فطرت سے گرےہوئے بدصفات نفس) جب تک اُبوبکر نام کا (سچی صفات والا) شخص اپنے شہر سے میرے پاس ہدیہ نہ لائو گے (صفاتِ نفس) نہ میں تم سے خراج لوں گا، اور نہ ہی تمہاری چکنی چپڑی باتیں سنوں گا (کہ خود حریص اور مغرور ہوجائوں)۔ یہ سُن کر انہوں نے اشرفیوں کا بورا اُس کے سامنے لاڈالا کہ ایسے شہر سے ابوبکر نہ مانگ (ایسا ہی کچھ حضور اکرم ﷺ کی دعوت حق کو روکنے کے لئے کیا گیا تھا)۔ ابوبکر (فطری پاک صفات نفس)، سبزوار (بدصفات نفس کے درمیان) کہاں ہوسکتا ہے۔ (خوارزم نے) اشرفیوں سے منہ پھیر لیا اور کہا کہ اے کافرو، جب تک تم اُبوبکر (صاحبِ روح) کا تحفہ میرے پاس نہ لائو گے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں بچّہ نہیں ہوں کہ سونے اور چاندی سے حیران رہ جائوں۔ اے حقیر (نفس) جب تک تو (صدق دل سے سُپردگی کا) سجدہ نہ کرے گا نہ چھُٹے گا۔ خواہ تو ساری مسجد کو ناپ ڈالے۔ (ریاضت کی انتہا کر ڈال)۔
انہوں نے دائیں بائیں جانب جاسوس دوڑائے کہ اس ویرانے (جسمانی وجود) میں کوئی ابوبکر (خوش صفاتِ نفس) کدھر ہے۔ تین دن اور تین رات کے دوڑے پھرنے کے بعد انہوں نے ایک لاغر ابوبکر (صاحب ِ دل) پالیا۔ وہ ایک (اس جہان میں) مسافر تھامرض(بے رُخی) کی وجہ سے وہ اس ویران بیماری (نفس) سے بھرے علاقہ (جسم) میں گوشہ میں پڑا رہ گیا تھا۔ وہ مرض کی وجہ سے دل کا خون چہرے پر چھڑکے ہوئے، اس ویرانہ میں ایک موتی کی طرح بے سروسامانی کی حالت میں پڑا تھا۔ وہ ایک اُجڑے ہوئے گوشہ (جسم) میں سو رہا تھا۔ جب انہوں نے اس کو دیکھا تو فوراً کہا کہ اٹھ۔ بادشاہ حق نے تجھے طلب کیا ہے۔ کیونکہ تیری وجہ سے ہمارا شہر (بدصفات نفس سے بھرا جسم) قتل سے بچ جائے گا۔ اس نے کہا اگر میرے پائوں ہوتے، یا چلنے کی تاب ہوتی تو اپنے راستہ (طلب) پر اپنی منزل (حق) کو چل دیتا۔ میں اس دشمن (نفس بد) کے علاقہ میں کب ٹھہرتا۔ دوستوں کے شہر کی جانب سواری ہانک دیتا۔ (مقامِ روح پر ایک بے دست و پا کی طرح اٹھایا ہی جاتا ہے ۔ بغیر دستِ کرم کے یہ کہاں ممکن ہے) تب ہی انہوں نے مُردوں کو اٹھانے کا ایک تختہ لیا اور کاندھوں پر ابُوبکر کو اُٹھالیا۔ وہ سب خوارزم شاہ (حق) کی جانب دوڑے۔ وہ اُس کو اس لئے، جارہے تھے کہ وہ (نفس بد کے ہاتھوں روح کی بربادی کی) نشانی دیکھ لے۔
یہ سبزہ زار ہے اور مردِحق اس میں برباد ہے اور نیست ہے۔ وہ خوارزم شاہ اس ذلیل قوم (دنیاداروں) سے دل کا طالب ہے۔ رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ وہ خدا تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا۔ پس اپنی تدبیروں میں صاحب دل کو تلاش کرو۔ یعنی میں، صاحب دل کے ذریعہ تجھ میں نظر کرتا ہوں۔ نہ کہ صورت اور سجدہ اور عطائے زر کے ذریعہ۔ چونکہ تم نے اپنے (ناقص) دل کو (روشن) دل سمجھ لیا ہے، اس لئے تم نے صاحب ِ دل کی جستجو چھوڑ دی ہے، وہ دل تو ایسا ہوتا ہے کہ اگر سات آسمان جیسے سو آسمان اس میں آئیں تو وہ بھی (اس کی وسعت میں) گم اور پوشیدہ ہوجائیں۔ (تُم دنیا داروں کے) اس طرح کے (تنگ) ریزوں کو دل نہ کہو۔ سبزوار (دنیا) کے اندر ابوبکر (صاحبِ دل) کو تلاش نہ کرو۔ صاحبِ دل تو چھ رُخا آئینہ ہوتا ہے۔ حق تعالیٰ اس میں چھ جانب سے دیکھتا ہے۔ وہ تھوڑی دیر کے لئے بھی (کسی شکل میں بھی) اللہ کے علاوہ کب دیکھتا ہے، وہ اگر نظر بھی کرتا ہے۔ تو اس اللہ کے لئے کرتا ہے اور اگر قبول(یاناقبول) کرتا ہے تو اسی حق کی سند حاصل کرکے۔ کیونکہ وہ ہر حالت میں حق تعالیٰ کے لئے ہوتا ہے۔ اس لئے اس ذوالجلال پاک نے اسے منتخب کرلیا ہوتا ہے۔حق تعالیٰ اس کے (واسطے کے) بغیر کسی کو عطا نہیں دیتا ۔ میں نے واصلِ بالحق کے بارے میں ایک نہایت کم بات بتا دی ہے۔ وہ حق تعالیٰ عطیہ اس کے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھ دیتا ہے۔ اس کی ہتھیلی کے ذریعہ اس کو قابل رحم لوگوں کو دیتا ہے۔ اُس ہتھیلی کا دریائے کُل سے ملاپ ہے۔ وہ ہتھیلی کمالات سے پُر ہے۔ وہ ملاپ (کس قسم کا ہے)، یہ بیان نہیںہوسکتا۔ اس کے بیان کرنے میں تکلّف ہوتا ہے۔ اس لئے میرا سلام ہے۔
اے مالدار! اگر تو سونے کے سو بورے لائے گا! تو حق تعالیٰ فرما دے گا کہ اے کُبڑے! دل لا۔ اگر وہ دل تجھ سے راضی ہے کہ میں بھی تجھ سے راضی ہوں اگر وہ تجھ سے منہ پھیرنے والا ہے تو میں بھی تجھ سے منہ پھیرنے والا ہوں۔ میں تیرے اندر نہیں دیکھتا۔ اس دل میں نظر کرتا ہوں۔ اے جان (اے روح) میرے در پر اس کا تحفہ لا۔ تیرے ساتھ وہ جیسا ہے، میں بھی ویسا ہی ہوں۔ (اگر ماں کی طرح ہے تو سمجھ کہ) اسی لئے جنت کی بابت کہا ہے کہ مائوں کے پائوں کے نیچے ہے۔ مخلوق کی ماں اور باپ اور اصل وہ (صاحبِ دل) ہی ہے۔ اس لئے وہ شخص قابل مبارک باد ہے، جس نے دل (یعنی باطن) اور چھلکے (یعنی ظاہر) میں امتیاز کرلیا۔ جب تو (حق تعالیٰ سے) کہے گا کہ میں تیرے پاس یہ دل لایا ہوں تو تجھ سے کہہ دے گا، کہ یہ دل تو ایک کوڑی کا بھی نہیں ہے۔وہ دل لا، جو قطب ِ عالم ہے۔ وہ دل، آدم علیہ السلام کی جان، کی جان، کی جان، کا محبوب ہے۔ اس نیکی اور نور سے بھرے ہوئے دل کا وہ دلوں کا بادشاہ (حق) منتظر ہے۔
تو اگر ایک عرصہ (اس دنیا کے) سبزوار میں گھومے گا تو اپنے بھروسہ پر ایسے دل کو نہ پاسکے گا۔ اس لئے تُو ایک مرجھایا ہوا، اور بوسیدہ روح والا دل (اپنی کمزور روح) تختے پر رکھ کر وہاں لے جا۔ کہ اے شاہ! میں تیرے لئے دل لایا ہوں۔ سبزوار (اُجاڑ جسم) میں اس سے بہتر دل نہیں ہے۔ وہ تجھ سے کہہ دے گا کہ اے بے باک! کیا یہ قبرستان ہے کہ تو ایک مُردہ دل یہاں لایا ہے۔ جا وہ دل لا، جو شاہانہ مزاج رکھے (یعنی ولی حق والا)کیونکہ دنیا کے سبزوار کو اسی کی وجہ سے امن حاصل ہے۔ تو کہے گا کہ وہ دل اس دنیا میں مفقود ہے۔ کیونکہ تاریکی (یعنی دنیا) اور نُور (یعنی حق) دو ضدیں ہیں۔
اس (روشن) دل کیساتھ ازل سے ۔دشمنی سبزوار شہر (دُنیا) کو، میراث میں ملی ہے۔ کیونکہ وہ (صاحبِ دل) باز ہے اور دنیا کوّئوں کا شہر ہے۔ غیرجنس (دنیا دار)کو غیرجنس (مرد ِ حق) کا دیکھنا سخت پڑتا ہے۔ اگر وہ(غیرجنس) نرمی کرتا ہے تو گویا نفاق برت رہا ہے۔ وہ (دوسرے کو) مائل کرکے فائدہ حاصل کررہا ہے۔ وہ ہاں ہاں، کسی نیازمندی کی وجہ سے نہیں کرتا۔ بلکہ اس لیے کہتا ہے کہ ناصح اپنی نصیحت کو لانبا نہ کرے۔ کیونکہ یہ کمینہ کوّا مُردار کو تلاش کرنے والا ہے۔ اور تہہ بہ تہہ لاکھوں مکر رکھتا ہے۔ اگر وہ (صاحبِ دل) اس کے نفاق کو (جو اُن پر روشن ہے) قبول کرلیں تو گویا اس نے نجات حاصل کرلی۔ گویا اس کا یہ فائدہ مند نفاق اُس کے لئے عین سچائی بن گیا۔
کیونکہ وہ شان و شوکت والا صاحبِ دل، ہمارے بازار میں عیب دار کو بھی خرید لینے والا ہے۔ اس لئے اگر تم مُردہ (دل) نہیں ہو تو صاحبِ دل کی تلاش کرو۔ اگر تم شاہ (حق) کے مخالف نہیں ہو تو پھر دل کے ہم جنس بن جائو۔ وگرنہ جس کا مکر تمہیں اچھا لگتا ہے وہ تمہارا ولی ہے، نہ کہ کوئی مردِخُدا۔
کیونکہ ہر وہ شخص جو تمہاری عادت اور مزاج کے مطابق زندگی گزارتا ہے تمہارے نزدیک وہ ولی ہے، اور نبی ہے۔ اے صاحبِ خانہ (اے جسمانیت میں گرفتار) جا نفسانیت کو چھوڑ تاکہ تیری بھلائی ہو اور تیرا دماغ عنبر (یعنی بُوئے محبوب) کو سونگھنے والا بن جائے۔ نفسانیت سے تیرا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ تیرے دماغ کے لئے مُشک اورعنبر (بُوئے ذات) بے قدر ہوگئے ہیں۔ تو کوّے کی طرح (نجاست دنیا) پر عاشق ہے۔ تیرے دماغ میں مُشک (ذات) کی خوشبو نہیں آتی۔
اس بات کی حد نہیں ہے اور ہمارا ہرن اصطبل میں جابجا بھاگ رہا ہے۔ (رُوح قید جسمانی میں ہراساں ہے)۔‘‘

تازہ ترین