• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لودھراں انتخاب‘ حالیہ دور کا بڑا اپ سیٹ، نواز شریف لہر چل پڑی

Todays Print

اسلام آباد (احمد نورانی) لودھراں میں این اے 154؍ کی نشست پر گزشتہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین 40؍ ہزار ووٹوں کی برتری سے نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن اس مرتبہ نواز شریف، شہباز شریف یا پھر حمزہ شہباز میں سے کسی نے بھی حلقے کا دورہ نہیں کیا جبکہ پی ٹی آئی چیف نے الیکشن کمیشن کی پابندی کے باوجود حلقے کے دورہ کیا اس کے باوجود نواز لیگ کے عام امیدوار کی کامیابی ظاہر کرتی ہے کہ نواز شریف کیلئے زبردست حمایت موجود ہے اور اس سے پنجاب کے موڈ کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ لودھراں کے عوام کا فیصلہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ انہوں نے نواز شریف کے خلاف حالیہ فیصلے مسترد کر دیئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ نواز لیگ کے سربراہ کو دبائو میں آ کر اور کچھ دیگر وجوہات کی بنا پر نشانہ بنایا گیا۔ پاناما فیصلے کے بعد نواز شریف کی مقبولیت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور نواز لیگ کے سربراہ بڑی عوامی ریلیاں منعقد کر رہے ہیں۔ پشاور اور مظفرآباد میں نواز لیگ کے حالیہ بڑے عوامی اجتماعات ناقابل یقین حد تک بڑے اجتماعات تھے۔ ریلیوں کے شرکاء نواز شریف اور مریم نواز شریف کے ساتھ رابطے میں تھے اور ان کے سوالوں کا جواب بھی دے رہے تھے۔ سیاسی ماہرین اور مبصرین کے د رمیان اس بات پر بحث و مباحثہ جاری ہے کہ اگر شریف خاندان کے خلاف فیصلوں نے انہیں مقبول بنا دیا ہے تو نواز شریف اور مریم نواز کو سزا سنانے یا جیل بھیجنے کا فیصلہ ان کی مقبولیت کو آسمان تک پہنچا دے گا اور نواز لیگ آئندہ الیکشن دو تہائی اکثریت کے ساتھ جیت سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت اور اس کے قریبی اتحادی عوام کو بتا رہے ہیں کہ نواز شریف اور مریم نواز کو دو یا تین ہفتوں میں جیل بھیج دیا جائے گا۔ یہ اتحادی مکمل یقین کے ساتھ ایسی باتیں پھیلا رہے ہیں کہ یہ سب کچھ ہونے میں کچھ ہی دن باقی رہ گئے ہیں۔ یہ عناصر کھل کر عوام کو بتا رہے ہیں کہ آرٹیکل 62-1-ایف کی تشریح اور پارٹی چیف کی اہلیت کے حوالےسے فیصلہ نواز شریف کیخلاف آئے گا۔ لیکن، ایسے ہر اقدام کے نتیجے میں نواز شریف کی مقبولیت بڑھ رہی ہے اور اگر یہ سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوا تو نواز لیگ کو مزید مقبولیت حاصل ہوگی۔ یہ احساس کہ نواز لیگ کی مقبولیت اس کے خلاف ہر مخالف فیصلے کے باوجود بڑھ رہی ہے نے پی ٹی آئی کے حلقوں اور اس کے اتحادیوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ پلان تبدیل کرنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے لیکن ابتدائی منصوبوں کی ناکامی کی وجہ سے پیدا ہونے والی پریشانی کی وجہ سے نئی حکمت عملی نہیں بن پا رہی۔ پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں کا کہنا ہے کہ اصل حکمت عملی یہ تھی کہ نواز لیگ کو اس کی قیادت کیخلاف فیصلوں اور قیادت کو جیل بھیجے جانے کے بعد توڑ دیا جائے لیکن ابتدائی فیصلے کے بعد سامنے آنے والی صورتحال نے اصل منصوبے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ پی ٹی آئی رہنما اب یہ سمجھتے ہیں کہ نواز لیگ کی قیادت کیخلاف ایک اور مخالفانہ فیصلہ اور انہیں جیل بھیجنے سے ان کی مقبولیت بڑھ جائے گی۔ اگرچہ نواز شریف کے نعرے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کے جواب میں ان کے ساتھ بالائی پنجاب کے مختلف شہروں میں ہمدردی کی ایک لہر پیدا ہوئی لیکن کئی سیاسی ماہرین کی رائے ہے کہ نواز لیگ جنوبی پنجاب میں اتنی مقبول نہیں۔ این اے 154 کی نشست، جہاں نواز لیگ 2013ء میں کامیاب نہیں ہوئی تھی اور پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین کامیاب ہوئے تھے، کو پی ٹی آئی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ یہ درست سوچ تھی کیونکہ یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ جہانگیر ترین نے اس حلقے میں اربوں روپے خرچ کیے ہیں۔ تاہم، پنجاب کے اس علاقے کے عوام کی جانب سے عام انتخابات سے چند ،ماہ قبل کیا جانے والا فیصلہ واضح طور پر باقی پنجاب کے عوام کے فیصلے کی عکاسی کرتا ہے۔ بظاہر، ’’پیرنی‘‘ کی پیشگوئی اس مرتبہ ناکام ثابت ہوئی اور ایک ’’پیر‘‘ کامیاب ہوگیا۔ پی ٹی آئی میں چند لوگ ایسے ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ناکامی کی وجہ پی ٹی آئی چیف کی ایک ایسی خاتون سے شادی کی خبریں ہیں جس نے اپنے شوہر سے طلاق لی، یہ اقدام پنجاب کے کئی علاقوں میں انتہائی غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، پارٹی پریس ریلیز کے مطابق پی ٹی آئی چیف شادی کی پیشکش کا جواب موصول ہونے کے منتظر ہیں۔ اب کافی دیر ہو چکی ہے لیکن اب تک کوئی جواب نہیں آیا۔ ممکن ہے کہ ناکام پیشگوئی کے بعد یہ پیشکش قبول کر لی جائے۔ نواز لیگ کے ووٹوں میں کٹوتی کرنے کیلئے مذہبی جماعتوں کو استعمال کرنے کی حکمت عملی بھی ایک مرتبہ پھر اسی طرح ناکام ہوئی جس طرح چند ماہ قبل این اے 120؍ کے الیکشن کے موقع پر ہوئی تھی۔ تمام کارڈ کھیلے گئے اور سب ناکام ہوئے۔ مایوسی اب بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اب اگلا کارڈ اور پی ٹی آئی کے مستقل حامیوں کی جانب سے کیا اقدام کیا ہوگا۔ لیکن، حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کا جوڑ تباہ کن ہے اور تمام منصوبہ سازوں کے منصوبے ناکام ہو رہے ہیں۔ شہباز شریف نے بلا شک و شبہ پنجاب میں کارکردگی دکھائی ہے۔ تمام مبصرین اتفاق کرتے ہیں کہ پنجاب میں مکمل ہونے والے ترقیاتی کام اور ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے اور ان کیخلاف ہر فیصلہ انہیں مقبول لیڈر بنا رہا ہے اور تمام آزاد ماہرین قانون اتفاق کرتے ہیں کہ شریف خاندان کیخلاف فیصلے جلد بازی میں بے بنیاد انداز سے سنائے جا رہے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ نواز لیگ کی قیادت کیخلاف سنائے جانے والے فیصلے سازش ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہیں کسی اور کی ایما پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ تاثر ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہو رہا ہے ۔ نواز شریف کے قریبی ساتھی انہیں بتا رہے ہیں کہ ان کی مقبولیت بلندیوں پر ہے اور انہیں چاہئے کہ جلد از جلد عام انتخابات کرانا چاہئیں لیکن مردم شماری کے بعد ہونے والی حلقہ بندیوں ایک مسئلہ ہے جس کی وجہ سے یہ تجویز قبول نہیں کی جا رہی۔ مذہبی ووٹوں کو استعمال کرنے، مطلوبہ شرائط پوری کیے بغیر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی تیاریاں کرنے، نواز کے سرگرم رہنمائوں کو ہدف بنانے سمیت تمام پلان ناکام ہو چکے ہیں اور ان تمام ناکامیوں نے منصوبہ سازوں کو ایک مرتبہ پھر اپنے پلان پر غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لودھراں کے نتائج نے عدلیہ کے پی ٹی آئی چیف کی جانب مائل ہونے کے پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے اور سیاسی مخالفین کیخلاف فیصلوں کو مسترد کردیا ہے۔

تازہ ترین