• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے حکم پر گزشتہ روز وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی عدالت میں پوری خوش دلی کے ساتھ پیشی اور چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی جانب سے عدلیہ کے حکم کو تسلیم کرنے کے ان کے اس اقدام کی کھلے دل سے پذیرائی سے حکمراں جماعت کی قیادت اور اعلیٰ عدلیہ کے درمیان پائے جانے والے مستقل کشیدگی کے تاثر میں کمی بلاشبہ ایک مثبت اور خوش آئند پیش رفت ہے ۔ یہ رجحان برقرار رہا اور حکمراں جماعت کے دیگر رہنماؤں نے بھی اسے فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کیا تو یہ یقیناً ریاستی اداروں میں بہترہم آہنگی کا سبب بنے گا ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی سپریم کورٹ کی طلبی پر اس کے روبرو حاضر ہوچکے ہیں اور چیف جسٹس نے وزیر اعلیٰ پنجاب کی پیشی کو سراہتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ کے طرزعمل کی بھی تعریف کی۔ حکومتی سربراہوں کی جانب سے عدلیہ کی تعظیم و توقیر کا رویہ ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے نیک فال ہے اور اس کے نتیجے میں اصلاح احوال کی راہیں کشادہ ہوں گی۔ تاہم یہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ عدالت عظمیٰ کو صوبائی سربراہان حکومت کو عدالت میں طلب کرنے کی ضرورت کیوں پڑی۔ سندھ اور پنجاب دونوں صوبوں میں اس کا سبب صحت و صفائی، تعلیم اور علاج معالجے جیسے بنیادی عوامی مسائل و مشکلات کے حل میں انتظامیہ کی سست روی ہے۔ پنجاب میں ایک مدت سے ممتاز شخصیات کی حفاظت کے لیے ان کی رہائش گاہوں کے آس پاس سڑکوں پر مستقل رکاوٹیں کھڑی کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔عوام کی شکایات اور عدالت کی جانب سے توجہ دلائے جانے کے باوجود اس مسئلے کو حل نہیں کیا گیا جس کے بعد ملک کی سب سے بڑی عدالت کو اس معاملے میں براہ راست مداخلت کرکے صوبائی سربراہ حکومت کو رکاوٹیں ہٹانے کی فوری کارروائی کی ہدایت کرنی پڑی اور پھر چند گھنٹوں کے اندر اس حکم پر عمل درآمد مکمل ہوگیا۔شہریوں نے طویل مدت سے آمد و رفت میں مستقل تکلیف کے خاتمے پر سکھ کا سانس لیا اور عدالت عظمیٰ کے شکر گزار ہوئے جس نے انتظامیہ کو حکم دے کر عوام کی مشکل کا ازالہ کیا۔وزیر اعلیٰ پنجاب کو سڑکوں سے رکاوٹیں نہ ہٹائے جانے کے علاوہ شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے ناکافی انتظامات پر بھی وضاحت کے لیے عدالت میں طلب کیا گیا تھا۔وزیر اعلیٰ نے عدالت کو بتایا کہ ان کی حکومت نے بجلی کی پیداوار سمیت درجنوں ترقیاتی منصوبے ساڑھے چار سال میں مکمل کیے ہیں جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ وہ منصوبے اپنی جگہ مگر یہ بتائیں کہ صاف پانی کے معاملے میں آپ نے کیا کیا ۔وزیر اعلیٰ نے عدالت سے درخواست کی کہ صاف پانی کی فراہمی کے لیے جامع منصوبہ پیش کرنے کی خاطر انہیں تین ہفتے کا وقت دیا جائے اور عدالت نے ان کی یہ درخواست منظور کرلی۔ عوامی مسائل کے حل اور ان کی پریشانیوں کے ازالے کے لیے چیف جسٹس کے یہ از خود اقدامات بلاشبہ قابل تعریف ہیں ، عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے اور سپریم کورٹ کے سربراہ کو مملکت کے آئین میں اسی ضرورت کی تکمیل کے لیے سوموٹو ایکشن کا اختیار دیا گیا ہے۔ لیکن چیف جسٹس کو یہ اختیار جتنے بڑے پیمانے پر استعمال کرنا پڑرہا ہے اس سے یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہے کہ ملک بھر میں انتظامیہ اپنے فرائض منصبی کی کما حقہ انجام دہی سے شدید غفلت کی مرتکب ہورہی ہے۔ شہریوں کو صاف پانی اور صحت مند غذائی اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنانا، گلی کوچوں میں گندگی کے ڈھیر جمع نہ ہونے دینا، سڑکوں اور شاہراہوں کو آمد و رفت کے لیے کھلا رکھنا، اسپتالوں میں مریضوں کی دیکھ بھال کے مناسب انتظامات کرنا، یہ عدلیہ کی نہیں انتظامیہ کی لازمی ذمہ داریاں ہیں، ان کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا حرکت میں آنے پر مجبور ہونا ، انتظامیہ کی ناقص کارکردگی کا کھلا ثبوت ہے۔ ان معاملات میں عدلیہ کا متحرک ہونا خوش آئند ہے تاہم یہ عارضی حل ہے مستقل حل یہ ہو گا کہ ہر ادارہ اپنے طور پر اپنی ذمہ داریاں کماحقہٗ ادا کرے۔

تازہ ترین