• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی حقوق کی پاسداری، قانون کی حکمرانی، عدل و انصاف کی سربلندی، مظلوموں اور پسے ہوئے طبقات کی دادرسی اور مطلق العنان آمریتوں کے مقابلے میں جمہوریت اور جمہوری اقدار کے لئے پچھلے کئی عشروں سے اٹھنے والی دبنگ اور توانا آواز اتوار کی صبح ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی۔ ہم یہ نوحہ پیشہ وکالت کی آبرو محترمہ عاصمہ جہانگیر کے غم میں لکھ رہے ہیں جن کی ناگہانی موت نے پوری قوم کو سوگوار کر دیا ہے۔ دل کا دورہ اور ہائی بلڈپریشر کی بدولت برین ہیمرج جان لیوا ثابت ہوا اور اپنے ملک ہی نہیں، دنیا بھر میں کسی جگہ بھی ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آہنی عزم سے دلیرانہ لڑنے والی یہ غیر معمولی خاتون لاہور میں ملک عدم کو روانہ ہو گئی۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ 2018 کے پہلے چھ ہفتوں میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی کئی نابغہ روزگار شخصیات یکے بعد دیگرے دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ ابھی ان کا غم تازہ تھا کہ محترمہ عاصمہ جہانگیر بھی ان سے جاملیں۔ وہ ایوب خان اور یحییٰ خان کے آمرانہ ادوار میں ملک کے ایک جرأت مند سیاستدان ملک غلام جیلانی کی صاحبزادی تھیں جنہیں پابند سلاسل کیا گیا تو بعض بڑے بڑے وکلا نے ان کا کیس لڑنے سے انکار کر دیا، ناچار عاصمہ جہانگیر نے جو اس وقت عاصمہ جیلانی کے نام سے متعارف تھیں، بہت کم عمری میں یہ کیس خود سپریم کورٹ میں لڑا اور یحییٰ خان کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جیتا۔ یہ مقدمہ آج بھی عاصمہ جیلانی کیس کے نام سے مشہور ہے اور قانون کی عدالتوں میں اس کی نظیر پیش کی جاتی ہے۔ معروف قانون دان اور پاکستان میں آمریت کے خلاف مزاحمت کی علامت، عاصمہ 1952میں لاہور میں پیدا ہوئیں۔ اپنے نامور والد کی پیروی کرتے ہوئے وہ بہت جلد خود بھی جمہوریت پسند لیڈر کے طور پر ابھریں، ضیاء دور میں بحالی جمہوریت کی تحریک چلانے پر قید کی صعوبت برداشت کی۔ پرویز مشرف کے دور میں جب ملک میں ایمرجنسی نافذ کی گئی تو اس کی مخالفت کرنے پر انہیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ انسانی حقوق کی علمبردار ہونے کے ناطے انہیں 1987میں انسانی حقوق کمیشن کا سیکرٹری جنرل اور اگلے ہی سال چیئرمین منتخب کر لیا گیا۔ وہ پاکستان کی پہلی خاتون تھیں جو سپریم کورٹ بار کی صدر بنیں۔ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف انہوں نے اس وقت آواز اٹھائی جب ملک کے 80فیصد لوگ اسے روایات کا حصہ سمجھ کر اس کے خلاف بولنے سے کتراتے تھے۔ دنیا کے بڑے بڑے لیڈر ان کی فکر و فلسفہ کے مداح تھے۔ ان میں بے نظیر بھٹو بھی شامل تھیں جن کی وہ ذاتی دوست تھیں۔ خواتین، میڈیا،کسان، مزدور، سیاسی ورکر، عام آدمی یا کسی کے ساتھ بھی ظلم و زیادتی ہو، وہ ان کے حق میں آواز اٹھاتیں اور اکثر بلامعاوضہ ان کے کیس لڑتیں۔وہ ایک صاف گو بے باک اور نڈر خاتون تھیں۔ پچھلے سال اقوام متحدہ کی رپورٹر کے حیثیت سے سری نگر گئیں اور واپسی پر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر معرکتہ آرأ رپورٹ پیش کی جو ساری دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لئےکافی ہے۔ وہ جس بات کو درست سمجھتیں ببانگ دہل اس کا اظہار کرتیں اور اس پر ڈٹ جاتیں، چاہے کسی کو پسند ہو یا نہ ہو۔ وہ ہر مکتبہ فکر کے لوگوں میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں۔ ان کے مخالفین بھی ان کی حریت فکر کے قائل تھے حق گوئی پر انہیں مختلف اطراف سے دھمکیاں بھی ملتی رہیں مگر انہیں خاطر میں نہ لاتے ہوئے وہ اپنی ڈگر پر قائم رہیں۔تجزیہ کاروں نے اعتراف کیا ہےکہ عاصمہ جہانگیر نے انہیں بولنے کی آزادی دلائی اور جمہوری ستونوں کو بچانے میں کردار ادا کیا۔ صحافتی تنظیموں اور اخباری صنعت کے ذمہ داران نے ان کی وفات کو قوم کے لئے ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔ وہ ریاستی اداروں کو آئین کے تحت اپنی حدود میں رہنے اور اختیارات سے تجاوز نہ کرنے کی تلقین کرتی رہیں۔ ان کی خدمات کی عالمی سطح پر تحسین کی جاتی تھی۔ انہیں ملکی اور غیرملکی سطح پر کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ حکومت پاکستان نے انہیں ہلال امتیاز اور ستارہ امتیاز کے اعزازات عطا کئے۔ وکلا تنظیموں نے ان کا تین روزہ سوگ منانے کا اعلان کیا ہے ان کی وفات سے قوم ایک ایسی شخصیت سے محروم ہو گئی ہے جس کی کمی آنے والے وقتوں میں شدت سے محسوس کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین

تازہ ترین