• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انصاف، امن و خوش حالی، حق گوئی و بے باکی وہ فاختہ ہے جو بدقسمتی سے گدِھوں کے نرغے میں ہے۔ مشال ہو یا زینب، عاصمہ رانی ہو یا اسماء یا پھر نقیب اللہ ہو سب کو انصاف فراہم کرنے میں ہم بُری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ یہ عدالتیں ہی ہیں جن پر مظلوم تکیہ کئے بیٹھے ہیں۔ ایک دوسرے کو چورچور کہنے والے سیاسی رہنما انسانی حقوق پر اپنے صوبوں میں جو ڈاکہ ڈال رہے ہیں اس پر بھی عدالت کو آگے آنا پڑتا ہے۔ عوامی مسائل سے نا آشنا حکومت و حزب اختلاف کے سیاسی رہنما سینیٹ انتخابات کے نشے میں دھت کرپشن کی تلواریں میان سے نکال جیب اور جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔
کون کس کے ایما پر لُوٹتا رہا اور کس کے کہنے پر ناحق خون بہاتا رہا، اس ڈھول کاپول جلد ہی کھلنے والا ہے۔ عابد باکسر کی گرفتاری کے بعد مزید افسران بھی ہٹ لسٹ پر ہیں، اُدھر رائو انوار بھی پکڑے گئے تو کئی معززین کا گریبان چاک ہو جائے گا۔ سیاسی، انتظامی اور اقتصادی وڈیروں نے جو گورکھ دہندہ شروع کررکھا ہے۔ وہ اپنے انجام کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے مگر پھر سوچتا ہوں کہ جن سلطانی گواہوں کی لائن لگنے والی ہے ان کی گواہیوں کو بھی اگر صولت مرزا والے انکشافات کی طرح ہوا میں اڑا دیاگیا تو اس گلشن کا کیا بنے گا جس کے تحفظ کی ہم قسم کھا کر اس کی ایک ایک کلی کو مسل رہے ہیں۔ ہم نازک دور سے تو ہمیشہ سے گزرتے چلے آئے ہیں مگر جو کھیل اب شروع ہوا ہے اس پر شرم آتی ہے۔ مشال قتل کیس میں بری ہونے والے26افراد کا جس طرح والہانہ استقبال کیا گیا، مشال کے قتل کی واردات میں شک کی بنیاد پر رہائی کا پروانہ حاصل کرنے والے شرکاء جرم جو وکٹری کا نشان بنا رہے تھے کیا وہ انصاف، امن اور تہذیب و روایات کے خلاف فتح کا نعرہ تھا۔ حیران کن بات یہ تھی کہ ایک ناحق قتل کے حق میں ایک سیاسی جماعت کے مقامی رہنما اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال رہے تھے جس معاشرے میں تعلیم یافتہ کہلانے والے طبقے کا یہ حال ہو وہاں ان پڑھ، اجڈاور گنوار سے آپ کیا توقع رکھیں گے۔ جس معاشرے میں سو سے زائد لوگ مل کر ایک ایسے نہتے نوجوان کو سرعام بے دردی سے قتل کر دیں جس پر جرم قتل کے بعد بھی ثابت نہ ہوسکا ہو اس معاشرے کی سمت کا اندازہ لگائیں کہ وہ کدھرجارہا ہے۔ ایسے معاشروں میں صولت مرزا، عزیر بلوچ، عابد باکسر اور رائو انوار جنم لیتے ہیں جن کے کنگ میکر لاشوں پر رقص کا تماشا دیکھتے ہیں اور وکٹری کا نشان بنا کراس قوم کی غیرت کو للکار رہے ہوتے ہیں۔ یہ صورت حال حیران کن ہی نہیں پریشان کن بھی ہے، حالات جو نظر آرہے ہیں وہ ہیں نہیں جو ہیں وہ نظر نہیں آتے۔ آئے دن ٹکرائو، محاذ آرائی اورشش و پنج کی اس صورت حال میں عام آدمی کی حالت بڑی پتلی ہوتی جارہی ہے۔ یقیناً تمام سیاسی جماعتوں، حکمرانوں کی توجہ اس وقت سینیٹ الیکشن اور جولائی میں متوقع عام انتخابات کی طرف مرکوز ہے لیکن ان بے چارے عوام کا کیا کریں جو ہر آنے والے دن مسائل کی دلدل میں پھنستے جارہے ہیں۔ کوئی نہیں جو اس کی سنے، کوئی نہیں جوان غریبوں کو دلاسہ دے۔ جہاں روشنی کے مینار پھوٹنے کی امید پیدا ہوتی ہے وہاں الزام تراشیوں کا ایک ایسا بازار گرم کیا جاتا ہے کہ ہر ایک کو اپنی جان کے لالے پڑ جائیں۔ عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی، قومی اداروں پر بہتان تراشیاں، چلتی گاڑی کو روکنے کی ایسی کوششیں کہ انسان دنگ رہ جائے۔ مجموعی طور پر ہر کوئی اس میدان کا بہترین کھلاڑی ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ شاید چلتے نظام زندگی میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہمارے رویوں کی پختگی ہے جسے ہم تبدیل نہیں کرسکتے۔ ہم اپنا کرکے کھانے کے عادی نہیں مگر دوسروں کو بھی ترقی کرتا دیکھ نہیں سکتے۔ یہ حسد اور لالچ کی انتہا ہے جسے انسانی فطرت سے نکالنا ناممکن ہے مگر اصلاح ضرور کی جاسکتی ہے۔ کبھی کسی نے یہ سوچا کہ یہ دہشت گردوں کے خوف سے لگائے گئے حفاظتی ناکے، عمارتوں کے باہر ریت کی بڑی بڑی دیواریں، گلی گلی محلے محلے بیریئر اور اسپیڈ بریکرز کیا ہماری حفاظت کرسکتے ہیںیا محض ذہنی کوفت، انتشار اور ہماری زندگی کی تیز رفتاری میں رکاوٹ کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ دشمن کے خوف کی وہ نشانیاں ہیں جو جگہ جگہ ہم نے اپنے انفرادی تحفظ کی خاطر سجارکھی ہیں۔ یہ تو خدا کا شکر ہے کہ قومی سلامتی کے اداروں اور پولیس اہلکاروں کی لازوال قربانیوں کے نتیجے میں ہم دہشت گردی کے جن پر قابو پانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوگئے مگر صورت حال اس وقت زیادہ گمبھیر محسوس ہوتی ہے جب ہم اپنے رویئے تبدیل کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ موضوعات کچھ اور تھے مگر ذہنی کوفت سے دوچارہوں کہ زندہ دلان لاہور کے رویئے کیوں تبدیل ہوگئے۔ یہ تو خوشیوں بھرا شہر تھا مگر آج جنگل بن گیا۔ لاہوریوں کے مجموعی رویئے میں جو تبدیلی محسوس کررہا ہوں اس نے مجھے اندر سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ آئے دن کے احتجاج، مظاہرے اور ایک بے چاری مال روڈ اور اس کے اردگرد کی مصروف ترین شاہراہیں، علاقے، اہم سرکاری عمارتیں اور چند لوگوں کا ہجوم جو سول سیکرٹریٹ سے پیدل چلتا ہے اور پنجاب اسمبلی کے سامنے خیمہ زن ہو کر پورے شہر کی ناکہ بندی کردیتا ہے کیا کبھی کسی نے سوچا ہے اس ایک سڑک کے اوپر احتجاج سے پورے شہر کی زندگی کس طرح برباد ہوجاتی ہے۔ اس شاہراہ سے منسلک اہم تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچے بچیاں، سول سیکرٹریٹ کے ملازمین، سول کورٹ اور ہائی کورٹ میں آنے جانے والے ہزاروں سائلین جس ذہنی انتشار کا شکار ہوتے ہیں وہی رویئے ہماری زندگی کی تلخیاں بن جاتی ہیں، ہماری سوچیں منفی ہو رہی ہیں، خوشیاں روٹھ رہی ہیں، امور زندگی بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں، وقت کی قدر کرنا ہمارے معاشرے سے تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ ہمارے رویوں میں جواز بہت سارے ہیں مگر حل کوئی نہیں۔ مجموعی رویوں سے لے کر حکمرانوں تک ہر کوئی منصوبہ بندی اور عملی سوچ سے عاری بھاگے دوڑا جارہا ہے۔ زندہ دلوں کے شہر کی پہچان خوبصورت باغ تھے جو اجڑ گئے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آبادی میں تیزی سے اضافے کے ساتھ ساتھ اس شہر کو مزید بہتر انداز میں انتظامی طور پر ایسے آگے بڑھاتے کہ پورے شہر کی آبادی کا دبائو کسی ایک مخصوص علاقے پر نہ ہوتا مگر حکمرانوں کو اورنج لائن، میٹرو کی اکھاڑ پچھاڑ سے فرصت ہو تو پرسکون زندگی کا پہیہ رواں دواں ہو۔
اس ضمن میں دکھ اور فکر کی بات یہ ہے کہ مال روڈ کو بند کرنے والے ناخواندہ افراد نہیں ہوتے ان میں کارکنوں کے ساتھ ساتھ سیاست دان، دینی شخصیات حتیٰ کہ اساتذہ تک شامل ہیں، ہم خوش حال، پُرامن پاکستان کی تگ و دَو کررہے ہیں لیکن ہمارے اسکولوں کے بچے جو آج کل ہڑتالوں اور احتجاجوں کے بھرپور ماحول میں منفی خیالات اور تنگ نظری کے ماحول میں پرورش پارہے ہیں یہ ہمارے کل کے قائد ہیں، جب ان کا بچپن اس ادھیڑ بن میں گزرے گا تو جوان ہوتے ہوتے ان ذہنوں میں جو خیالات جنم لیں گے ان میں امن کی فاختہ کا کہیں کوئی وجود نظر نہیں آئے گا، اپنے حق کے لئے احتجاج کرنا اچھی بات ہے لیکن اپنے مطالبات تسلیم کرانے کے لئے پورے شہر کے عوام کا ناطقہ بند کردینے کا کیا جواز؟ کہاں کی شرافت ہے؟ ہم سب کو مل کر اس پر غور کرنا ہوگا۔

تازہ ترین