• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شدت پسندی، عدم برداشت وغیرہ کسی بھی معاملے میں ہو سنگین مضمرات، ناپسندیدہ اور برے انجام کا حامل فعل ہوتا ہے۔ ہم بحیثیت قوم ہر قسم کی انتہا پسندی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ آج کی نشست میں ہم اسکول، کالج، مدارس اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات اور اساتذہ میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی پر بات کریں گے۔ اسکول، کالج اور مدارس یونیورسٹی میں انتہا پسندی کے بڑھنے کے کئی اسباب اور عوامل ہیں۔ ایک بڑا سبب ذرائع ابلاغ پر چلنے والے بعض ڈرامے، فلمیں اور روئیے بھی ہیں۔ ان ڈراموں اور فلموں میں جب نوجوان ایسے مناظر، ڈائیلاگ، مکالمے اور مباحثے سنتا ہے تو غیرشعوری طورپر وہ بھی ایسا ہی کرنے لگتا۔ امریکہ یورپ اور مغربی معاشرے میں بننے والے ڈراموں کی نقالی جب سے یہاں ہونے لگی ہے تب سے ہمارے نوجوان بھی ویسا ہی بننے پر فخر محسوس کرنے لگے ہیں۔ مشرقی تہذیب و روایت اور اسلامی اقدار کا جنازہ نکل گیا ہے۔دوسری اہم وجہ احساسِ محرومی ہے۔ آج کا نوجوان جب دیکھتا ہے کہ کار، کوٹھی، بنگلہ، کروفر، لش پش زندگی گزارنے کے لئے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، اس کے گھر میں دو وقت کی روٹی بھی پوری نہیں ہوتی، جبکہ دوسرے کے گھر کے کتے بھی مزےکررہے ہیں تو مرنے مارنے پر آجاتا ہے۔ تیسرا بڑا سبب ہمارے قائدین کا رویہ بھی ہے۔ 2007کے بعد سے سیاسی پارٹیوں کے قائدین نے جس طرح کی لینگویج متعارف کروائی ہے اور جس طرح کا جارحانہ رویہ اپنایا ہوا ہے اس سے نوجوان متاثر ہوئے ہیں۔ عدم برداشت عروج پر ہے۔ کوئی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔چوتھی بڑی وجہ آزاد سوشل میڈیا ہے۔ سوشل میڈیا پر نئے لکھنے والے نوجوان لکھاریوں نے ایسا ٹرینڈ متعارف کروایا ہے جس میں عدم برداشت کا درس دیا جاتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مشتعل ہونے کا پیغام دیا جاتا ہے۔ آپ کسی دن فیس بک پر جاکر ’’اسکرولر‘‘ گھماکر دیکھ لیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک جذباتی پوسٹ نظر آئے گی۔ پانچویں بڑی وجہ معاشرے میں پھیلی، فحاشی و بے حیائی ہے۔ بے شرمی اور مادر پدر آزاد ماحول ہے۔ ذومعنی جملے ہیں۔ ایسی چیزیں، نمائش اور تقاریب ہیں جن سے نوجوانوں کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔ چھٹی بڑی وجہ طبقاتی تفریق بھی ہے۔ آپ بنظرغائر دیکھ لیں، آپ کو ہر طبقے میں طبقاتی تفریق نظر آئے گی۔ تھانہ کچہریوں سے لے کر دانش گاہوں تک یہ تفریق واضح دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ تفریق بھی اشتعال انگیزی کا ایک بڑا سبب ہے۔ ساتویں بڑی وجہ تربیت کا فقدان ہے۔ ماضی میں گھروں کے بزرگ افراد خصوصاً دادا دادی، نانا نانی، تایا وغیرہ بچوں کی تربیت کی ذمہ داری سنبھالتے تھے۔ بچپن سے ہی برداشت، رواداری اور تحمل کی عملی تربیت دی جاتی تھی۔ جب سے ہمارے ہاں سے جوائنٹ فیملی سسٹم ختم ہوا اور سیپریٹ سسٹم شروع ہوا ہے، تب سے ہمارے بچوں کی تربیت فلمیں اور ڈرامے کررہے ہیں اور بعض ڈراموں میں جیسا درس دیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ عدم برداشت کی صورت میں ہی نکلتا تھا۔ آٹھویں بڑی وجہ حیا کا فقدان اور بے حیائی کا فروغ ہے۔ پہلے گھروں میں بڑے چھوٹے کی تمیز سکھائی جاتی تھی۔ بچوں کو بتایا جاتا تھا کہ استاد کا کس طرح ادب و احترام کرنا ہے؟ استاد کی عظمت کے سچے واقعات سنائے جاتے تھے۔ اور اس وقت جو استاذ ہوتے تھے وہ پہلے کمرشل نہیں ہوتے تھے۔ وہ سب بچوں کو اپنا بچہ ہی سمجھتے تھے، لیکن اب ہر چیز اور کام کا معیار بدل چکا ہے۔ اب گھروں میں چلنے والے مغربی تہذیب پر مشتمل ڈرامے یہ سب کام کررہے ہیں جس میں عدم برداشت کے مناظر ہوتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ ذہنی و اخلاقی تربیت کی اَشد ضرورت ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے معاشرے کو یونہی چھوڑ دیں کہ وہ مزید تباہی کی طرف چلا جائے اور اس طرح کے المناک واقعات وقوع پذیر ہوتے رہیں یا پھر ہمیں اپنے نوجوانوں میں برداشت، تحمل، رواداری اور صبر کا درس دینا چاہئے۔ ملک بھر کے نفسیات دان اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ہم نے اپنے نوجوانوں کو یونہی چھوڑ دیا تو چند سالوں کے بعد یہ شعلے سے بھانبڑ بن جائیں گے۔ یہ کسی کے قابو میں نہ رہیں گے۔ اس حوالے سے ہمارے ذہن میں چند تجاویز ہیں۔ 1 ۔ حکومتی سطح پر تھنک ٹینک تشکیل دیا جائے، اس میں ماہرین نفسیات ہوں۔ یہ 5سال سے لے کر 25سال کے نوجوانوں پر تحقیق کریں۔ انٹرویو کریں اور پھر تجزیہ کریں کہ ہمارے یہ نوجوان کیوں انتہا پسندی کی طرف جارہے ہیں، ان میں عدم برداشت کیوں بڑھ رہی ہے؟ یہ پہلے اسباب پر گہرا غور و فکر کریں اور پھر تجویز پیش کریں اور آخر میں حکومت اور متعلقہ تعلیمی اداروں کو سفارشات دیں کہ وہ یہ یہ اقدامات کریں۔ 2۔سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ابواب نصاب میں باقاعدہ شامل کئے جائیں جن میں برداشت، رواداری اور صبر کا درس دیا گیا ہے۔ اسی طرح قرآن پاک کی وہ تمام آیات بھی نصاب کا حصہ بنائیں جن میں ’’رحماء بینھم‘‘ کا پیغام دیا گیا ہے، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، اولیاء اللہ، صلحاء اور بزرگوں کے ایسے واقعات اور حکایات بھی نصاب میں شامل کئے جائیں جن میں بھائی چارے، اتفاق و اتحاد اور برداشت کا سبق ملتا ہو۔3۔اساتذہ کرام اور ٹیچرز کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ ان کو بچوں کی تربیت کے کورسز اور ورکشاپ کروائی جائیں۔ اسی طرح والدین بھی اپنے گھروں میں اپنے بچوں کی تربیت کا اہتمام کریں۔ بچوں کو گھر میں ماں باپ، اسکول میں ٹیچرز اور معاشرے میں بزرگوں کی صورت میں کوئی نہ کوئی رول ماڈل چاہئے ہوتا ہے، چنانچہ سب مل کر ہی بچوں کی تعلیم و تربیت کا مشکل فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔4۔تمام اسکولوں، کالجوں اور مدارس میں سب بچوں کے لئے کھیل کود، ورزش لازم قرار دی جائے، کیونکہ مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کی وجہ سے شدت پسندی میں کمی آتی ہے۔ برداشت کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ ذہنی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔5۔بچوں کو فارغ نہ رہنے دیں۔ انہیں کاموں میں مشغول رکھیں۔ یہ کام ان کی دلچسپی کے ہوں تو بہت اچھا ہے۔ بچوں کو بے کار بالکل نہ رہنے دیں، کیونکہ فارغ شخص کا دماغ شیطان کا کارخانہ بن جاتا ہے۔6۔معتدل علمائے کرام مفتی تقی عثمانی، مفتی رفیع عثمانی، مولانا طارق جمیل، مفتی منیب الرحمن، مولانا رضا جیسے جید اور اعتدال کا درس دینے والے علماء ماہرینِ نفسیات اور اکابر کے بیانات کروائے جائیں۔ ان سے بھی نوجوانوں میں برداشت کا مادہ پیدا ہوگا۔ اس طرح کی اور بھی کئی تجاویز ہیں جوہم نے اپنی کتاب ’’دینی مدارس‘‘ کے تیسرے چیپٹر میں تفصیل سے لکھ دی ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ اسکول، کالج، مدارس اور یونیورسٹیوں کے تمام مالکان، چانلسرز، ذمہ داران، مہتمم حضرات، اساتذہ اور ارباب حل و عقد کو باہمی مل جل کر اس بات کا حل نکالنا ہے کہ نوجوانوں میں انتہا پسندی اور شدت پسندی ختم ہو۔ صبر اور برداشت کا مادہ پیدا ہو۔

تازہ ترین