• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جاپان کے اس خوبصورت پارک سے سورج غروب ہونے کا سماں بہت خوبصورت لگ رہا تھا، سردیوں کے موسم میں ڈھلتا سورج اپنی خوبصورت رنگدار شعاعوں کے ساتھ بہت بھلا محسوس ہوتا ہے اور جب ساتھ میں آپ کے وہ ہو جسکے ساتھ آپ اپنی پوری زندگی گزارنا چاہ رہے ہوں تو زندگی کے رنگ اور بھی رنگین ہو جاتے ہیں میرے ساتھ بھی اس وقت ایک خوبصورت جاپانی دوشیزہ اینامورا موجود تھی اس سے میری ملاقات چند ماہ قبل ہی اسکواش کورٹ میں ہوئی جہاں وہ اسکواش دیکھنے آیا کرتی تھی جبکہ میں اسکواش کا بہترین کھلاڑی سمجھا جاتا تھا لیکن صرف شوقیہ ہی اسکواش کھیلتا تھا۔ اینامورا کی عمر چوبیس برس تھی اور وہ بہت ہی جاذب نظر اور مسحور کن شخصیت کی مالک تھی، مجھے ایک جاپانی خاتون کے حسن کی خوبیاں بیان کرنا انتہائی مشکل کام لگتا ہے کیونکہ ہمارے اور جاپان کے حسن کے معیار مختلف ہیں، لمبے سیاہ گھنے بال، چھوٹی لیکن چمکدار اور پرکشش آنکھیں، درمیانہ قد گوری رنگت اور چھوٹی چپٹی سی ناک کے ساتھ اینا مورا میرے دل میں سما گئی۔ میں اس کے ساتھ اپنی تمام زندگی بسر کرنا چاہتا تھا لیکن ان دنوں میں کئی ماہ سے بے روزگار تھا جس کے سبب تمام جمع پونجی ختم ہوگئی تھی۔ آج ویلنٹائن ڈے تھا لہٰذا اینامورا کیلئے چاکلیٹ کی خریداری کے بعد اتنے ہی پیسے بچے کہ سردی کے موسم میں صرف ایک عدد کافی ہی منگوائی جاسکتی تھی لہٰذا کافی دیر گپ شپ کے بعد ہیپی ویلنٹائن ڈے کہہ کر خوبصورت پیکنگ میں موجود ایک عدد سستی سی چاکلیٹ کا پیکٹ اینامورا کے ہاتھ میں دیتے ہوئے اسے زندگی کا ساتھی بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو اس نے بھی ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ہاں کے ساتھ سر کو جھکا کر میری زندگی میں خوشیاں بھر دیں لیکن افسوس یہ تھا کہ جیب اس وقت بالکل خالی تھی لیکن میں نے بھی موسم کی سردی کو محسوس کرتے ہوئے اس سے کافی پینے کا پوچھا تو اس نے ایک بار پھر اثبات میں سر ہلا کر میرے معاشی حالات کا امتحان لے لیا، میں اینامورا کے سامنے اپنی معاشی حالت ظاہر نہیں کرنا چاہ رہا تھا لہٰذا پر اعتماد انداز میں اٹھا اور ایک دکان سے اپنی کل جمع پونجی یعنی سو ین سے ایک کافی خریدی اور ایک بارپھر پر اعتماد انداز میں اینا مورا کے سامنے کافی پیش کردی، ایک کپ دیکھ کر وہ حیران ہوئی اور سوال کیا صرف ایک کافی کیوں، میں نے ہلکے سے مسکراتے ہوئے کہا کہ آج ویلنٹائن ڈے ہے لہٰذا ایک ہی کافی میں سے آدھی آدھی مل کر پیتے ہیں اور پھر ایک کھوکھلا سا قہقہہ لگایا اور یوں بات آئی گئی ہوگئی، سورج غروب ہوگیا اور کھانے کا وقت ہونے لگا، میں نے اسے کھانے کی آفر کی اور وہ بھی اس نے قبول کرلی جس پر میں کھڑا ہوگیا اور اسے کھانے کیلئے گھر چلنے کی دعوت دی کہ آج ویلنٹائن ڈے پر خاص کھانا تیار کیا ہے لہٰذا آج کھانا گھر پر کھاتے ہیں وہ بیچاری اس پر بھی تیار ہوگئی، گھر پر میں اپنے تین عدد دوستوں کے ساتھ رہائش پذیر تھا لہٰذا دوست کو فون کیا کہ میرے ساتھ اینامورا بھی کھانے پر آرہی ہے لہٰذا گھر کچھ صاف کرلینا اور اس کے کسی اعتراض سے قبل ہی میں فون کاٹ چکا تھا۔ ہم پیدل ہی گھر کیلئے روانہ ہوگئے اگلے پندرہ منٹ بعد میں اینامورا کے ساتھ گھر پر موجود تھا، تینوں دوست بھی تھے ان سے اینامورا کا تعارف کرایا، میں بہت زیادہ جاپانی زبان سے واقف نہیں تھا لہٰذا انگریزی میں ہی اینامورا سے گفتگو کرتا تھا لیکن ہمارے ایک سینئر دوست جو جاپان میں کافی عرصے سے مقیم تھے، سیاسی پناہ گزین بھی تھے اور کسی کمپنی میں ویلڈر کا کام کیا کرتے تھے وہ کافی دیر تک اینامورا سے جاپانی زبان میںہی گفتگو کررہے تھے بعض دفعہ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ اینامورا سے میرے بارے میں ہی کوئی بات چیت کررہے ہیں اور اس دوران جب اینا مورا میری جانب دیکھتی تو میں بھی اسے مسکرا کر دیکھ لیتا، میں یہی سمجھ رہا تھا کہ نواز بھائی شاید میری تعریف میں کچھ کہہ رہے ہونگے لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ان کی بات چیت کے بعد اینامورا کے چہرے کے رنگ تبدیل ہورہے ہیں، پھر وہ اپنے آنسو نہیں روک پائی اور بیگ اٹھا کر باہر کی جانب جانے لگی، میں نے ایک نظر نواز بھائی پر ڈالی جو سفاکانہ نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے تھے ،میں بھی اینامورا کے پیچھے گھر کے باہر نکل گیا۔ وہ مجھ سے بات نہیں کرنا چاہ رہی تھی، میری ہر بات پر مجھے جھوٹا ہی کہہ رہی تھی، بار بار کی درخواست کے بعداس نے بتا یا کہ نواز بھائی جو تمہارے کزن بھی ہیں انھوں نے تمہارے بارے میں سب کچھ بتادیا ہے کہ تم جاپان میں مزدوری کرتے ہو، پاکستان میں بھی تم اور تمہارے والدین بہت ہی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں اور تم کئی ماہ سے بے روزگار بھی ہو جبکہ تمہارا ویزا بھی ختم ہونے کو ہے اس لئے مجھ سے شادی کر کے تم ویزا حاصل کرنا چاہ رہے ہو۔ یہ تمام باتیں جھوٹ پر مبنی تھیں سچ صرف یہ تھا کہ مجھے اینامورا سے محبت تھی، میرا دل نواز بھائی نے توڑ دیا تھا جن پر بہت بھروسہ کرتا تھا لیکن انھوں نے اپنے حالات زندگی میرے نام کے ساتھ اینامورا سے بیان کردیئے جس پر اس کی دل آزاری لازمی تھی، اس روز اینامورا نے میری ایک نہ سنی اور چودہ فروری کے اس ویلنٹائن ڈے نے میری زندگی کے بہت سے چراغ بجھا دیئے۔ میں تیزتیز قدموں سے واپس آیا کہ نواز بھائی سے جواب طلبی کروں لیکن وہ بھی پوری طرح تیار تھے، گھر میں داخل ہوتے ہی بولنے کا موقع دئیے بنا ہی انھوں نے مجھے تحکمانہ لہجے میں فوری طور پر گھر خالی کرنے کا حکم د ے دیا، اب میرے پاس دو ہی راستے تھے کہ اگلے دن کی فلائٹ لیکر پاکستان چلا جائوں یا جاپان میں رہتے ہوئے حالات کا مقابلہ کروں، میں ایک بار پھر دکھی دل کے ساتھ نیچے آیا اور اسی پارک میں جاکر بیٹھ گیا، اب جاپان میں اللہ تعالیٰ کے سوا میرا کوئی نہیں تھا، اچانک میری نظر سامنے گرے ایک دس ین کے سکے پر پڑی، میں نے سکہ اٹھایا اور چند قدم کے فاصلے پر لگے فون بوتھ سے اس جاپانی کمپنی میں فون ملایا جہاں کئی ہفتوں کے دوران تین انٹرویو دے چکا تھا لیکن اب تک جواب نہیں ملا تھا اتفاق تھا کہ کمپنی رات دیر گئے تک کھلی ہوئی تھی دوسری جانب کمپنی کی منیجر نے یہ بتاتے ہوئے میری زندگی کی بہت سی مشکلات آسان کردیں کہ میں ٹیکنیکل منیجر کے عہدے کیلئے منتخب ہوچکا ہوں اوربہترین تنخواہ، گاڑی، مکان اور ویزا سمیت دیگر سہولیات کے ساتھ کل سے آفس بھی جوائن کرسکتا ہوں ، آج پھر ویلنٹائن ڈے ہے، میرا نام رانا عابد حسین ہے، اینامورا اب عائشہ کے نام سے ایک مسلمان خاتون کے طورپر میری اہلیہ ہیں ،میری دو بیٹیاں پندرہ اور گیارہ برس کی ہوچکی ہیں اللہ کے فضل و کرم سے ،دنیا کے بائیس ممالک میں میرا کاروبار پھیلا ہوا ہے اور ہاں نواز بھائی سترہ سال پہلے ہی جاپان میں غیر قانونی قیام کے جرم میں ملک بدر کیے جاچکے ہیں۔

تازہ ترین