• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 پاک آرمی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باوجوہ نے منگل کے روز کابل میں چیفس آف ڈیفنس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے درست طور پر نشاندہی کی کہ علاقائی امن اور استحکام کا راستہ افغانستان سے ہو کر گزرتا ہے جبکہ خطے یا ریجن مشترکہ کاوشوں سے اکٹھے ترقی کرتے ہیں، ملک اکیلے نہیں۔ کانفرنس میں امریکی سینٹرل کمان اور ریوزولوٹ سپورٹ مشن (آر ایس ایم) کے سربراہوں کے علاوہ افغانستان، قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے آرمی چیف بھی شریک تھے۔ مذکورہ کانفرنس کا انعقاد ایسے منظر نامے میں ہوا کہ افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ نظر آرہا ہے اور بعض حملوں کی ذمہ داری داعش اور اس کی حلیف تنظیموں کی جانب سے قبول کی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان میں پوست کی کاشت پچھلے برس ریکارڈ سطح تک جاپہنچی جبکہ منشیات کی غیرقانونی تجارت دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لئے غیرمعمولی حد تک معاون ہے۔ افغان وزارت دفاع کے ترجمان کے مطابق اس صورتحال کو ایران اور روس سمیت کئی پڑوسی ممالک اپنے لئے خطرے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ کانفرنس کے تمام شریک ممالک خطے میں امن و استحکام کے لئے باہمی تعاون جاری رکھنے کیلئے پرعزم ہیں۔ پاک فوج کے سربراہ نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ پاکستان نے اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کے تمام ٹھکانے ختم کردیئے ہیں تاہم دہشت گرد ایک طرف 27لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی اور دوسری جانب پاک افغان سرحد پر موثر سیکورٹی سسٹم کی غیرموجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جاری آپریشٓن ردّالفساد کے ذریعے ایسے دہشت گردوں کا سراغ لگایا اور انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، اور اسلام آباد دوسرے ملکوں سے بھی یہی توقع کرتا ہے۔ جنرل قمر جاوید باوجوہ کا یہ خطاب خطے کی صورتحال کے تجزیے، درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی حکمت عملی اور ان الزامات کے جوابات کا احاطہ کرتا ہے جن کا کابل حکومت اور امریکی کمان کی جانب سے پاکستان کو ہدف بنایا جاتا رہا ہے۔ اس ضمن میں امریکی صدر کے نئے سال کے ٹوئٹ پیغام اور پاکستان کے لئے معاشی مشکلات پیدا کرنے والے کئی اقدامات سے آگے بڑھ کر ایک نیا قدم اٹھایا گیا ہے۔ واشنگٹن نے فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس میں پاکستان کو گلوبل ٹیررسٹ فنانسنگ واچ لسٹ میں ڈالنے کیلئے ایک تحریک جمع کروا دی ہے جو ایسے ملک کے حوالے سے غیرحقیقت پسندانہ ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دیں اور افغانستان کے راستے اپنے اوپر مسلط کی جانے والی جنگ کو جیت سے ہمکنار کرتے ہوئے اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کا صفایا کرنے میں مصروف ہے۔ ایسے عالم میں پاکستان کو واچ لسٹ میں شامل کراکر اس کے لئے قرضوں، تجارت اور پاکستانی باشندوں کی آمد و رفت میں مشکلات پیدا کرنے کی کوشش اسلام آباد کی اس استعداد کو کمزور کرنے کے مترادف ہوگی جو دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کرنے کیلئے بروئے کار لائی جارہی ہے۔ پاکستان کے اندر دہشت گردوں سے نمٹنا اسلام آباد کا کام تھا۔ افغانستان کے اندر کارروائی کرنا وہاں موجود فوجوں کا کام ہے۔ جہاں تک خطے کے ملکوں کا تعلق ہے، انہیں بین البراعظمی تجارت و تعاون کے پرانے طریق کار سے ہٹ کر مشترکہ علاقائی ترقی کے جدید تصورات کو روبہ عمل لانا ہے۔ اس کیلئے افغانستان میں امن لانے اور اس کا راستہ کھولنے کی سبیل کرنا ہوگی۔ اس ضمن میں پاکستان نے اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کی جو پیشکش کی ہے اس کا مثبت جواب دیتے ہوئے ایسی پالیسیاں بنائی جانی چاہئیں جن میں ایک دوسرے پر شبہات کی گنجائش نہ ہو ، باہمی اعتماد بحال ہو اور تجارتی سرگرمیاں بڑھیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری کی صورت میں پورے خطے کی ترقی و خوشحالی کا ایک منصوبہ موجود ہے، اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے پرانی شاہراہ ریشم جلد بحال کی جانی چاہئے۔

تازہ ترین