• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس دنیا میں ایسے لوگ بہت کم نظر آتے ہیں جن کی تمام زندگی روایت شکنی میں گزرتی ہے اور پھر ان کی موت بھی روایت شکنی کی مثال بن جاتی ہے۔تمام زندگی فرسودہ روایات اور نظریات کے خلاف لڑنے والی عاصمہ جہانگیر کا جنازہ بھی اہل لاہور کو روایت شکنی کی ایک مثال کے طور پر یاد رہے گا۔ اس بہادر خاتون کے جنازے نے ناصرف ریاست کے تضادات کو عریاںکردیا بلکہ ان جمہوریت پسندوں کو بھی بےنقاب کردیا جو آج کل یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ تاریخ کی رائٹ سائڈ پر کھڑے ہیں اور متقدر قوتوں کے خلاف ان کا بیانیہ عوام میں بڑا مقبول ہورہا ہے۔ اتوار کے دن دوپہر کو محمد مالک نے عاصمہ جہانگیر کے انتقال کی خبر دی تو میں چند لمحوں کے لئے گم سم ہوگیا۔ اس باغی خاتون کے ساتھ تین دہائیوں پر محیط رفاقت کا سفر فلم کی طرح میرے دل و دماغ میں گھومنے لگا۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ آج گیارہ فروری ہے، یہ تحریک آزادی کشمیر کے ہیرو مقبول بٹ کا یوم شہادت ہے اور عاصمہ جہانگیر کی وفات بھی گیارہ فروری کو ہوئی۔ مجھے 2016کا ایک واقعہ یاد آیا جب آزاد کشمیر کے ایک لبرل دانشور اور کالم نگار ارشاد محمود نے مجھ سے رابطہ کیا اور گلہ کیا کہ پاکستان کے لبرل لوگ کشمیر کی تحریک آزادی میں دلچسپی نہیں لیتے اور پاکستان میں اس تحریک آزادی کو ایک مخصوص طبقہ اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سینٹر فارپیس، ڈیویلپمنٹ اینڈ ریفارمز کے زیر اہتمام ہم نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر ایک مظاہرے کا اہتمام کررہے ہیں آپ کچھ معروف لبرل لوگوں کو اس مظاہرے میں لانے کی کوشش کریں۔ میں نے فوراً عاصمہ جہانگیر کا نام لیا اور بتایا کہ وہ حال ہی میں سرینگر سے واپس آئی ہیں میں انہیں آپ کے مظاہرے میں لے کر آئوں گا۔ ارشاد محمود نے غیر یقینی انداز میں کہا’’کیا واقعی؟‘‘ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے سرینگر سے آسیہ اندرابی نے عاصمہ جہانگیر کے نام پیغام دیا تھا کہ کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کرو۔ میں نے یہ پیغام عاصمہ تک پہنچایا تو انہوں نے پنجابی میں مجھے کہا تھا کہ’’توں جتھے مینوں بلائیں گا میں برہان وانی نوں سلام پیش کرن آجاواں گی۔‘‘ میں نے فوراً عاصمہ جہانگیر کو فون کیا، وہ لاہور میں تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میں لاہور سے اس مظاہرے میں شرکت کے لئے اسلام آباد ضرور آئوں گی۔ ارشاد محمود نے پوچھا کہ کیا آپ فرحت اللہ بابر کو بلاسکتے ہیں؟ میں نے بابر صاحب سے رابطہ کیا اور انہوں نے بھی فوراً ہاں کردی۔ اگلے دن عاصمہ جہانگیر لاہور سے بائی روڈ سفر کرکے اس مظاہرے میں آئیں اور انہوں نے کشمیر کی تحریک آزادی پر ایک یادگار تقریر کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک مکار لومڑ قرار دیا جس نے کشمیر اور بلوچستان کا موازنہ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ عاصمہ جہانگیر کی یہ تقریر میڈیا میں رپورٹ ہوئی تو بھارت میں ان پر سخت تنقید شروع ہوگئی ا ور آر ایس ایس والوں نے انہیں پاکستانی ریاست کا خفیہ ہتھیار قرار دے دیا۔ عاصمہ کو پاکستان میں کچھ لوگ انڈین ایجنٹ اور بھارت میں پاکستانی ایجنٹ کہتے تھے۔ ایک انڈین ایجنٹ کی موت پر پاکستانیوں کی اکثریت سوگوار تھی اور ایک پاکستانی ایجنٹ کی موت پر بہت سے بھارتی افسردہ تھے کیونکہ عاصمہ کسی ریاست کی ایجنٹ نہیں تھی وہ صرف مظلوم طبقوں کی ایجنٹ تھیں۔ عاصمہ جہانگیر میں بہت سی بشری خامیاں تھیں لیکن ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے بڑے سے بڑے دشمن کو بھی معاف کردیتی تھیں اور دشمن پر کڑا وقت آتا تو اس کے ساتھ کھڑی ہوجاتیں۔
عاصمہ جہانگیر جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی صحافت کے حق میں سب سے زوردار آواز تھیں۔ 2007میں اسلام آباد کی لال مسجد میں آپریشن شروع ہوا تو عاصمہ جہانگیر نے خود فون کرکے مجھے کہا کہ لال مسجد والوں نے ایک چلڈرن لائبریری پر قبضہ کرکے اچھا نہیں کیا لیکن مسجد کے اندر آپریشن میں بھاری ہتھیاروں کا استعمال قابل مذمت ہے کیونکہ اندر بچیاں بھی موجود ہیں۔ 2013میں بنگلہ دیش کی حکومت نے ان معروف پاکستانیوں کو فرینڈز آف بنگلہ دیش ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا جنہوں نے 1971کے فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی۔ ان پاکستانیوں میں فیض احمد فیض، حبیب جالب، غوث بخش بزنجو، پروفیسر وارث میر اور ملک غلام جیلانی کے علاوہ کچھ دیگر محترم شخصیات شامل تھیں۔ ایوارڈ وصول کرنے کے لئے میرے اور عاصمہ جہانگیر سمیت دیگر نامزد شخصیات کے خاندانوں کو ڈھاکہ آنے کی دعوت دی گئی۔ ہم سب نے آپس میں مشورہ کیا اور اتفاق کیا کہ اگر پاکستان کا فوجی صدر جنرل پرویز مشرف 2002میں ڈھاکہ جاکر بنگلہ دیش کی’’تحریک آزادی‘‘ کے شہداء کے مزار پر پھول چڑھا سکتا ہے اور وزیٹرز بک میں 1971کے فوجی آپریشن میں ہونے والی خونریزی پر اظہار افسوس کرسکتا ہے تو ہم اپنے اپنے والد کو دیا جانے والا ایوارڈ کیوں وصول نہیں کرسکتے جنہوں نے 1971میں خبردار کیا تھا کہ ووٹ کے تقدس کو بندوق سے پامال کیا گیا تو پاکستان ٹوٹ سکتا ہے۔ ہم پاکستان اور بنگلہ دیش کو قریب لانے کی خواہش لے کر ڈھاکہ پہنچ گئے۔ وہاں ایوارڈز کی تقریب سے ایک رات قبل مجھے اور عاصمہ جہانگیر کو ایک ٹی وی پروگرام میں بلایا گیا اور جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے خلاف چلنے والے وار کرائمز ٹربیونل کے بارے میں سوالات کئے گئے۔ عاصمہ نے بڑے واضح انداز میں کہا کہ آپ لوگ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کررہے۔ وار کرائمز کے الزامات سیاسی لوگوں پر نہیں فوجی افسران پر تھے ان فوجی افسران کو شیخ مجیب نے ایک سہ فریقی معاہدے کے تحت معاف کردیا تھا پھر آپ سیاسی لوگوں پر مقدمہ کیوں چلارہے ہیں؟ میں نے بھی یہی کہا کہ مقدمہ چلانا ہے تو ان لوگوں پر چلائو جن کی فہرست شیخ مجیب نے پاکستانی حکومت کو دی تھی۔ غلام اعظم جیسے 90سالہ بزرگ پر مقدمہ چلانا ناانصافی ہے۔ ہماری گفتگو سے بنگلہ دیشی حکومت ناراض ہوگئی دوسری طرف پاکستان میں کچھ سازشی لوگوں نے اس ٹی وی پروگرام کی گفتگو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا اور عاصمہ جہانگیر کو ایک دفعہ پھر غداری کے الزام سے نوازا۔ شاید یہی وہ بےبنیاد الزامات تھے جن کے خوف سے مسلم لیگ(ن) کی’’شیر حکومت‘‘ نے عاصمہ جہانگیر کو سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کرنے کی جرأت نہ کی۔
منگل کی دوپہر میں سینیٹر پرویز رشید کے ہمراہ عاصمہ جہانگیر کے آخری دیدار کے لئے ان کے گھر پہنچا تو وہ اپنے ڈرائنگ روم میں سفید چادر اوڑھ کر لیٹی ہوئی تھیں۔ ان کا چہرہ بالکل تروتازہ تھا اور ہونٹوں پر ایک خوبصورت مسکراہٹ تھی۔ میں اس آخری مسکراہٹ میں سے طرح طرح کے پیغامات تلاش کرتا ہوا قذافی اسٹیڈیم کی طرف روانہ ہوا جہاں نماز جنازہ ادا کی جانی تھی۔
یہاں تمام انتظامات عورتوں نے سنبھال رکھے تھے۔ پاکستان کے ہر کونے سے ہر زبان و نسل سے تعلق رکھنے والا غدار اس جنازے میں موجود تھا۔ سیکورٹی کے سخت انتظامات کے باعث بہت سے لوگ جنازے کی جگہ تک نہ پہنچ سکے لیکن عابد حسن منٹو اور آئی اے رحمان جیسے بزرگ غداروں سمیت خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے آئے ہوئے ہزاروں نوجوان غداروں کے اس اجتماع میں عاصمہ جہانگیر حب الوطنی کے ٹھیکیداروں پر مسکرارہی تھیں۔ بہت سے لوگ کہہ رہے تھے کہ سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن ہونا عاصمہ کی نہیں ریاست کی ضرورت تھی۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن سے انکار کرنیوالے صاحبزادہ یعقوب علی خان کو اس ریاست نے وزیر خارجہ بنایا اور انکے جنازے میں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف شریک ہوئے لیکن مسلم لیگ(ن) ’’ شیر حکومت‘‘ عاصمہ جہانگیر کو سرکاری اعزاز سے دفن کرنے کی جرأت نہ کرسکی۔ عاصمہ کا تو کچھ نہیں گیا، ریاستی اداروں اور مسلم لیگ(ن) کے قول و فعل کا تضاد سامنے آگیا ۔ عاصمہ کے جنازے میں شریک ایک وکیل نے مجھے پوچھا کہ پہلے تو کبھی عورتوں کو نماز جنازہ میں نہیں دیکھا ؟ میں نے اکرم شیخ صاحب سے یہ سوال پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں عورتیں جنازوں میں شریک ہوسکتی ہیں تو یہاں بھی کوئی حرج نہیں۔ روایت شکن عاصمہ جہانگیر مسکراتے چہرے کے ساتھ رخصت ہوگئیں، اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔

تازہ ترین