• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقننہ ،انتظامیہ اور عدلیہ کسی بھی ریاست کے بنیادی ستون ہوتے ہیں۔ہر ستون ریاست کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اگر کوئی بھی ستون اپنی جگہ چھوڑ کر کسی دوسرے کی جگہ لینے کی کوشش کرے تو نقصان ریاست کا ہوتا ہے۔ہر ستون کو اپنی آئینی حدود اور دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔ملکی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی ادارے نے دوسرے ادارے کے معاملات میں ایک حد سے زیادہ مداخلت کی توردعمل سامنے آیا ہے۔آج وطن عزیز میں صورتحال کچھ اچھی نہیں ہے۔ایگزیکٹو کے معاملات میں اتنی مداخلت ماضی میں کبھی نہیں کی گئی،جتنی آج کل کی جارہی ہے۔ہمارے عدلیہ کے معزز دوست سپریم کورٹ کے مشہور فیصلے کا حوالے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ "ایگزیکٹو اور عدلیہ علیحدہ علیحدہ ہیں"جسٹس(ر) سجاد علی شاہ کے فیصلے کو ڈھال بنا کر مجسٹریسی نظام ختم کیا گیا اور ایگزیکٹو سے عدالتی اختیارات واپس لے لئے گئے۔مگر ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت کا سلسلہ آج تک نہیں تھم سکا۔ہم سے زیادہ آزاد اور خودمختار عدلیہ ہمسایہ ملک بھارت میں موجود ہے۔بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ سرحد کے اس پار بھی دیا جاتا ہے۔مگربھارت میں عدالتیں ہر طرح کے انتظامی معاملات میں ایگزیکٹو سے درخواست کرتی ہیں۔ چند ماہ قبل ایک تقریب میں بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھارتی وزیراعظم سے درخواست کی کہ وہ عدالتوں میں ججز کی تعداد پوری کرنے کیلئے فوری اقدامات کریں۔ حالانکہ عدالتوں میں ججز کی کمی عدالت کا اپنا انتظامی معاملہ ہے مگر اپنی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے چیف جسٹس آف ہندوستان نے ملک کے چیف ایگزیکٹو سے اقدامات کی اپیل کی۔اسی طرح برطانیہ میں بھی ایگزیکٹو کے معاملات میں کوئی بھی عدالت مداخلت نہیں کرتی۔جب عدالتیں ایگزیکٹو کے معاملات خود سنبھالنے کی کوشش کریں گی تو نقصان پوری ریاست کا ہوگا۔
آزاد اور خودمختار عدلیہ جمہوری پاکستان کے لئے اشد ضروری ہے۔ہم سب کو عدالت کا بے حد احترام کرنا چاہئے۔کسی بھی معاشرے میں عدلیہ امید کی آخری کرن ہوتی ہے۔جن معاشروں میں آزاد عدالتیں قائم نہیں رہتیں ،وہاں پر مقننہ اور انتظامیہ کی رٹ قائم رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔پاکستان میں آج کل عدالتی فیصلوں پر تنقید اور تبصروں کا سلسلہ عروج پر ہے۔سپریم کورٹ کے بھی بعض اقدامات پر تنقید کی جاتی ہے۔نظریہ ضرورت کا حوالہ دے کر عدالتی فیصلوں کو آڑے ہاتھوں بھی لیا جاتا ہے ۔مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر عدالت عظمیٰ سے ماضی میں کچھ غلطیاں ہوئیں تو اسی سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلے بھی دئیے۔جن سے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی مزید مضبوط ہوئی۔جمہوریت کی مضبوطی میں سپریم کورٹ کا اہم کردار رہا ہے۔گزشتہ پانچ سالوں کو ہی دیکھ لیں۔2014کا دھرنا ہو یا پھرانتخابی دھاندلی کیس کی سماعت۔سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان نے ہمیشہ مقننہ کو مضبوط کیا ہے۔لیکن غلطیاں بھی انسان سے ہوتی ہیں۔بڑا پن اسی میں ہوتا ہے کہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے مستقبل میں ان غلطیوں کو نہ دہرایا جائے۔گزشتہ چند ماہ سے ریاست کے اہم ستون عدلیہ کے حوالے سے جس قسم کی بحث جاری ہے۔مجھے اس پر شدید تکلیف ہے ۔وکالت کا طالبعلم ہونے کے ناطے مجھے برداشت نہیں ہے کہ سوشل میڈیا،گلی چوراہوں میں عدلیہ کے بارے میں نامناسب بحث کی جائے مگر مجھے یہ بھی برداشت نہیں ہے کہ ہمارے فیصلے ایسے ہوں۔ جن کا دفاع کرنا میرے جیسے طالبعلم کے بس میں بھی نہ ہو۔عدالتوں کو ہمیشہ اپنے آپ کو ایگزیکٹو کے معاملات سے دور رکھنا چاہئے۔جب بھی عدالتیں خود کو سیاسی مقدمات اور انتظامی معاملات میں الجھاتی ہیںتو نقصان پوری ریاست کا ہوتا ہے۔عدالتوں کو خود کو سیاسی کیسز سے دور رکھنا چاہئے۔
قارئین جانتے ہیں کہ پی پی پی کی بدترین گورننس کے باوجود میں نے شدید اعتراض کیا تھا کہ آئی جی سندھ لگانا صوبے کے وزیراعلیٰ کا مینڈیٹ اور اختیار ہے۔چیف ایگزیکٹو پورے صوبے کے عوام کا نمائندہ ہوتا ہے۔کسی کو بھی اس اختیار کو سلب کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔گزشتہ دنوں لاہور رجسٹری میں سماعت کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو پیش ہونے کا کہا گیا۔شہبا زشریف سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کے حکم کا احترام کرتے ہوئے عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالتی فیصلے کا احترام کرنے سے اچھی روایت نے جنم لیا ہے۔مگر کیا ایک ادارے کو دوسرے ادارے کے سربراہ کو بلانے سے معاملات ٹھیک ہونگے۔ وزیراعلیٰ مقننہ کے نمائندے ہیں اور دوسری طرف عدلیہ ہے۔آج جو کچھ بھی پاکستان میں ہورہا ہے ۔اس کے دوررس نتائج بہت خطرناک ہونگے۔آج کا کالم ایک صحافی نہیں بلکہ وکالت کے ایک ادنیٰ سے طالبعلم ہونے کے ناطے تحریر کیا ہے۔عدالت کا بھرم قائم رکھناصرف سیاستدانوں اور انتظامی افسران کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ عدالت کا بھرم قائم رکھنا عدلیہ کی بھی ذمہ داری ہے۔عدالتی تاریخ دیکھ لیں۔بعض فیصلے بھی توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں۔بھٹو صاحب کی پھانسی کے فیصلے کے بعد ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے اپنی غلطی کا خود اعتراف کیا ۔جس پر شاعر نے خوب لکھا تھا کہ
ہے فیصلہ خود باعث توہین عدالت
کچھ کہہ کے میں توہین عدالت نہیں کرتا
جو لوگ عدالت کا احترام کرتے ہیں اور ان کی تاریخ بھی عدالت کے احترام کی ہے۔ان کو بھی دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔شہباز شریف کو عدالت میں بلانے سے بالا تاثر مزید شدت اختیار کرے گا۔خدارا اداروں کا بھرم قائم رکھیں۔جب اداروں کا بھرم ٹوٹتا ہے تو پھر کچھ بھی نہیں رہتا۔پاکستان میں مضبوط عدالتی نظام کے لئے اشد ضروری ہے کہ ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرے اور عوامی مینڈیٹ لے کر آنے والوں کا بھرم قائم رکھا جائے۔جب مقننہ اور انتظامیہ کا بھرم قائم رکھا جائے گا تو پھر عدالتی بھرم خود بخود مستحکم ہوتا چلا جائے گا۔وگرنہ انصاف سے محرومی بڑھتی چلی جائے گی۔شاید اسی پر شاعر نے کہا تھا کہ
میزان عدل تیرا جھکاؤ ہے جس طرف
لوگوں نے اس طرف سے بڑے زخم کھالئے

تازہ ترین