• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خطے کی سرزمین کا خطے کے خلاف استعمال کیوں
کابل ڈیفنس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے کہا:خطے اکٹھے ترقی کرتے ہیں، ملک اکیلے نہیں، علاقائی امن و استحکام کا راستہ افغانستان سے گزرتا ہے۔ افغانستان کی علاقائی امن و استحکام کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ مگر یہ ایک کلیدی حقیقت ہے کہ کسی ایک خطے میں موجود ممالک جب تک ایک دوسرے کے لئے سازگار ماحول پیدا نہیں کرتے پورا خطہ بدامنی و انتشار کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ بات خطے کے ممالک کی ہے، جن کا سب کچھ باہمی تعاون نہ ہونے کے باعث دائو پر لگا ہوا ہے اس اجتماعی خطرے اور نقصان کی ان کو کوئی پروا نہیں ہے جو یہاں اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں، بلکہ خطے کے ممالک کو بھی اس پر آمادہ کر رہے ہیں، اب یہ ان ممالک کی قیادتوں کا کام ہے کہ وہ منظر نامے کو بغور دیکھیں، سمجھیں، اگر افغانستان، پاکستان، بھارت، ایران ایک پیج پر آ جائیں اور بیرونی قوتوں کے مفادات کا تحفظ نہ کرنے پر متفق ہو جائیں تو ہمیشہ کے لئے یہ خطہ امن کا گہوارہ بن کر اپنے بھرپور وسائل کو کام میں لاکر محیر العقول ترقی کر سکتا ہے، اگر درمیان میں کچھ مسائل، اختلافات حائل ہیں تو انہیں بلاشرکت غیرے آپس میں بامقصد مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں، یہ ایک پوشیدہ نکتہ ہے کہ کچھ بڑی قوتیں اس خطے میں امن، ترقی اور خوشحالی سے خائف ہیں، وہ تقسیم کرو اور پنجۂ استبداد کے نیچے رکھو کی پالیسی پر کل بھی عمل پیرا تھیں آج بھی ہیں، اب یہ اس خطے کے عوام اور ان کی قیادتوں کا فرض ہے کہ وہ کسی کی خطرناک ڈرامائی دوستی و مالی تعاون کے جھانسے میں نہ آئیں، ہمیں یقین ہے کہ وہ سمجھتے ہوئے بھی ضد اور بے بنیاد ان قوتوں کی دسیسہ کاری کے طلسم میں آ کر اپنا وقت اور وسائل جنگ و جدل کی تیاری پر ضائع کر رہے ہیں، خطے کی قیادتیں آپس میں مل بیٹھ کر بات کریں کسی اور کو دخل اندازی کا موقع نہ دیں ان پر سب کچھ کھل جائے گا، سچ تو یہ ہے کہ خطے میں موجود تمام ممالک کی ترقی و خوشحالی کو روکنا مقصود ہے، اور خطے کے ممالک اسی مقصد کی آبیاری کر رہے ہیں، جو تباہ کن ثابت ہو گا۔
موروثی سیاست متعدی مرض
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نے کہا ہے:لودھراں میں عمران نے موروثی سیاست پر عمل کیا، عوام نے مسترد کر دیا، ہارس ٹریڈنگ سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے، موروثی سیاست کی بیماری ہماری پوری ملکی سیاست کو عرصہ دراز سے لاحق ہے، اس کا علاج کرنےکے بجائے اسکی خوب خاطر تواضع کی جا رہی ہے، پانی کسی ایک جگہ کھڑا ہو جائے تو اس سے کبھی طہارت نہیں آتی ، جمہوریت کے تسلسل کی جان یہ ہے کہ وہ کسی ایک خاندان میں رک کر نہ رہ جائے یہ تمنا ہی بربادی کی طرف معاشروں کو لے جاتی ہے کہ میرا اقتدار میرا جاہ و حشم میرے ہی خاندان کو حاصل رہے، انسانی فطرت ہے کہ وہ بالعموم اپنے گھر کی سوچتا ہے، جبکہ اچھی حکمرانی کے تقاضے یہ ہیں کہ مقتدار، اقتدار کو اپنا استحقاق نہ سمجھے، اور یہ بھی نہایت خطرناک رجحان ہے کہ سیاست کو اہلیت کے بجائے دولت سے جوڑ دیا جائے، ایک اہل اور قابل انسان اگر سیاست کی مالی قیمت ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھے تو اس کی اہلیت سے معاشرے کو مستفید نہ ہونے دینا محرومی عام کرنے اور خوشحالی و دولت کو ایک مخصوص طبقے تک محدود رکھنے کے مترادف ہے، دولت کی غلط تقسیم اور اس کے مواقع پیدا کرنا ایک ایسا زہر ہے کہ ایک کو دیں تو سب مر جاتے ہیں، مگر یہ شومئی فہم ہے کہ اس زہر ناکی کو سمجھا نہیں جاتا حلق میں اتارا جاتا ہے، خورشید شاہ سب سے پہلے پی پی میں موروثی سیاست کی بیماری کا علاج کرتے ان کی بات میں کافی وزن ہوتا، ہمارے ہاں اب یہ عادت بد بھی عام ہے کہ اپنے عیبوں پر نظر نہیں ڈالی جاتی دوسروں میں کیڑے نکالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا، حالانکہ دوسروں کو بھی یہ بیماری خود اس کا واویلا کرنے والوں سے منتقل ہوئی، لودھراں میں ایک بڑے فرق کے ساتھ پی ٹی آئی کی شکست بہت کچھ خان صاحب سے کہہ رہی ہے، انہوں نے سیاست اور کرکٹ کو ایک سمجھا یہی ان کی غلطی ہے، سیاست کے اسرار و رموز ایک کھیل سے بالکل مختلف ہوتے ہیں، ن لیگ کو جب ایک عام آدمی دیکھتا ہے اسے اس میں کچھ نظر بھی آتا ہے، پی ٹی آئی میں وہ ہزار دیکھے مگر نظر خالی لوٹ آتی ہے، نااہل تو صرف ایک شخص قرار دیا گیا ہے، ن لیگ تو نا اہل نہیں اور نہ ہی وہ اپنے قائد کی قیادت سے محروم۔
٭٭٭٭
جھریاں اور چھریاں
ماہرین طب نے کہا ہے:جھریوں کا بہترین علاج، پوری نیند اور مناسب پانی پینا ہے، انسان سب سے زیادہ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتا ہے، اسی لئے جھریاں سب سے پہلے چہرے پر ہی شباب شکن چھریاں چلاتی ہیں، جھریاں تلاش کرنے سے آخر جھریاں مل ہی جاتی ہیں۔ صحت کا راز بلاشبہ نیند اور پانی میں ہے لیکن اس کے لئے محنت بہت ضروری ہے، جسمانی تھکن محنت سے آتی ہے اور تھکن پُر سکون مکمل نیند کی چابی ہے، زیادہ پانی، زیادہ نیند بھی اسی قدرتی لباس کی استری توڑ دیتی ہے اور جگہ جگہ سلوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں جو ہمیں دھلا دھلایا، استری شدہ پہنایا گیا، لباس کے نیچے جو گوشت پوست کا لباس ہے وہ باطن سے درست ہوتا ہے ظاہر سے نہیں، طرح طرح کے تیل، شیمپو، اور دیگر سر پر ملنے والی اشیاء سے کبھی کوئی گنجا صاحب بال نہیں ہوا، گنجے مرد عام ہوتے ہیں، گنجی خواتین خال خال، ممکن ہے اس میں شیطان کا بھی کوئی عمل دخل ہو، گنجا مرد چل جاتا ہے گنجی نہیں چلتی، ایک سوچ کا تعلق علم سے ہوتا ہے، ایک کا تعلق آ بیل مجھے مار سے ہوتا ہے یہی دوسری سوچ انسان کو وقت سے پہلے جھریاں دے کر بوڑھا کر دیتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ پُر سکون پوری نیند کے بعد انسان کو آئینہ اچھا لگتا ہے، مگر پُر سکون مکمل نیند کے لئے انسان کا تھکنا بہت ضروری ہے۔ یہ جو دل پرجھریاں پڑ جاتی ہیں یہ بھی کھانے پینے کا حق ادا نہ کرنے کے سبب پڑتی ہیں، خوشی کے مواقع کبھی عقل و خرد کے کرشموں سے نہیں خوشی کی تقریبات سے پیدا ہوتے ہیں، اور جب بھی کوئی ہنستا ہے مسکراتا ہے تو اس کی جھریاں خوشی میں خرچ ہو جاتی ہیں، اگر یہ عمل تسلسل سے ہو تو جھریاں غائب ہونے لگتی ہیں۔ یہ جو ایک تصور اب بہت عام ہے کہ بڑھاپا خود ایک بیماری ہے، اس نے بھی جھریاں تو کیا انسان کے تن بدن پر پے در پے چھریاں چلائی ہیں، قناعت کی حد پار کرنے کا بھی جھریوں سے گہرا تعلق ہے، یاد رکھیں جھری پہلے دماغ میں پیدا ہوتی ہے پھر جسم میں ظاہر ہوتی ہے، بیویاں اکثر اپنے شوہروں سے کم عمر ہوتی ہیں مگر وہ جلد کیوں بوڑھی ہو جاتی ہیں یہ تو سیدھا سیدھا شوہر کے خلاف فوجداری کیس ہے۔

تازہ ترین