• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپریل 2016ء کے بعد پانامہ انکشافات سے منسلک عدالتی معاملات ہوں، نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف عمران خان کے مسلسل الزامات ہوں یا دیگر اقدامات، ان سب سے نواز شریف کے ووٹ بینک کو کوئی نقصان پہنچنے کے بجائے فائدہ ہوتا ہی نظر آرہا ہے۔ ووٹرز میں مقبولیت کے اس حصول کو میاں نواز شریف کی خوش قسمتی کہا جائے، مسلم لیگ (ن) کے سیاسی، صحافتی، سماجی پلانرز، منیجرز اور ورکرز کی محنت یا پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کی بہت اچھی کارکردگی یا ان سب کا مجموعہ؟ منگل 9 جنوری کو چکوال، 12فروری کو لودھراں اس سے قبل ستمبر 2017کو لاہور میں ہونے والے انتخابات اس ووٹ بینک میں ترقی کی مثالیں ہیں۔
2017 میں عدالت کی جانب سے نااہل قرار دینے پر پاکستان میں قومی اسمبلی کی دو سیٹیں خالی ہوئیں۔ ان میں سے ایک میاں محمد نواز شریف کی لاہور میں قومی اسمبلی کی سیٹ این اے 120اور دوسری پی ٹی آئی کے مرکزی اور بہت بااثر رکن جہانگیر خان ترین کی لودھراں میں این اے 154۔ این اے 120 پر مسلم لیگ (ن) کی امیدوار بیگم کلثوم نواز نے کامیابی حاصل کی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پاکستان کے سیاسی اور حکومتی نظام میں خامیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں میں موروثی لیڈر شپ کی بھی شدید مخالفت کرتے آئے ہیں۔ ان کی یہ باتیں پاکستان کے پڑھے لکھے خصوصاً مڈل کلاس طبقے کو بہت بھاتی ہیں۔ لیکن لودھراں میں این اے 154کے لئے ٹکٹ جاری کرتے وقت عمران خان نے موروثی سیاست کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس الیکشن میں مسلم لیگ کے سید صابر علی شاہ ایک لاکھ 13ہزار ووٹ لے کر ایک بڑے فرق کے ساتھ کامیاب ہوئے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار جہانگیر ترین کے صاحب زادے علی ترین 87ہزار سے کچھ زائد ووٹ حاصل کر پائے۔ چکوال میں مسلم لیگ ن کے رکن صوبائی اسمبلی چوہدری لیاقت علی کی وفات سے خالی ہونے والی نشست پر 10 جنوری کو ہونے والے الیکشن میں مسلم (ن) کے چوہدری حیدر سلطان نے 75ہزار اور پی ٹی آئی کے راجہ طارق افضل نے 45ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے تھے۔ اگلے عام انتخابات سے چند ماہ پہلے ہونے والے یہ انتخابی معرکے ووٹرز کے رجحانات کے واضح اشارے دے رہے ہیں۔
جمہوری نظام میں عوام کی جانب سے امور مملکت چلانے کا حق افراد یا جماعتوں کو بذریعہ انتخابات ہی تفویض کیا جاتا ہے۔ حق نمائندگی کے طلب گار عوام کے سامنے اپنا پروگرام منشور یا وعدوں کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ عوام اپنے ووٹوں سے اپنے لئے حکمران منتخب کرلیتے ہیں۔ لیکن ووٹرز کو راضی کرنے کے لئے محض دل خوش کن وعدوں پر مشتمل انتخابی منشور ہی کافی نہیں۔ خاص طور پر برصغیر کے ممالک پاکستان، بھارت، بنگلادیش اور قریبی ملک سری لنکا میں کئی ووٹرز کارکردگی سے زیادہ وابستگی کو اہمیت دیتے آئے ہیں۔ یہ وابستگی مذہبی بھی ہوسکتی ہے اور نسلی یا لسانی بھی۔ کئی حلقوں میں قبیلہ، برادری یا خاندان سے تعلق حاوی آجاتا ہے۔
میرا اندازہ ہے کہ پاکستان میں ووٹرز کے مزاج، رجحانات اور ترجیحات پر سب سے اچھی اسٹڈی اور ریسرچ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کی ہے۔ میڈیا کے ذریعہ عوام تک رسائی ہو یا انتخابات میں مقابلہ آرائی، میں سمجھتا ہوں کہ دیگر جماعتوں کے برعکس مسلم لیگ (ن) مختصر مدت کے بجائے طویل مدتی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ یہ جماعت انتخابی عمل کو بطور ایک سائنسی عمل سمجھتی اور برتتی نظر آتی ہے۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں تحمل، صبر، استقلال اور ثابت قدمی جیسی صفات دوسروں سے کہیں زیادہ نظر آتی ہیں۔ میرا یہ بھی اندازہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں دیہی اور شہری علاقوں کے ووٹرز کے جذبات، خواہشات اور ضروریات کی تفہیم زیادہ ہے۔
عاصمہ جیلانی جہانگیر
پاکستان کے طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی عاصمہ جہانگیر اپنے مخصوص خیالات اور اپنی بعض کاوشوں کی وجہ سے نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر بھی مشہور ہوئیں۔ بطور وکیل انہوں نے حقوق انسانی کے تحفظ کے لئے غریب متاثرین کے کئی کیسز کی پیروی کے لئے کوئی معاوضہ نہیں لیا۔ وہ اپنے موقف کے لئے ڈٹ جانے کا حوصلہ رکھتی تھیں۔ انہوں نے جنرل یحییٰ خان کے خلاف عدالت عظمیٰ میں ایک مقدمہ دائر کرنے کی ہمت کی۔ اس مقدمے میں عدالت نے جنرل یحییٰ خان کو قانونی حکمران نہیں بلکہ غاصب قرار دیا تاہم یہ فیصلہ جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں نہیں بلکہ پاکستان دولخت ہوجانے اور جنرل یحییٰ خان کی جانب سے اقتدار ذولفقار علی بھٹو کو منتقل کردئیے جانے کے بعد 1972میں سنایا گیا تھا۔
عاصمہ جہانگیر نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک میں بھی حصہ لیا۔ اس حوالے سے ان کا نام بہت زیادہ لیا جاتا ہے، اسی تحریک میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے، کوڑے کھا کر معذور ہوجانے والے، روزگار سے محروم کردئیے جانے والے کئی صحافی، سیاسی ورکرز اور سرکاری افسران و ملازمین کا ان کی زندگیوں میں زیادہ چرچا نہ ہوسکا، نہ ہی ان کی موت پر بڑے پیمانے پر کوئی سوگ منائے گئے۔ شاید اس لئے کہ وہ سب لوگ ایلیٹ کلاس سے نہیں بلکہ متوسط یا غریب طبقات سے تعلق رکھتے تھے۔
عاصمہ جیلانی جہانگیر ایک بلند آہنگ اور جرات مند خاتون تھیں۔ بعض افراد نے کہا ہے کہ عاصمہ نے مخالفانہ حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ عاصمہ کی جرأت مندی بیان کرنے کے لئے مردانہ وار کے الفاظ استعمال کرنا بہادری کی صفت کو صرف مردوں سے وابستہ کردینا ہے۔ کسی خاتون کی ہمت و بہادری کو سراہنے کے لئے صفت کا تذکرہ مردانہ وار کے بجائے، دلیرانہ، جرات مندانہ اور دیگر مترادفات کے ساتھ کرنا چاہئے۔
صدیق بلوچ
بلوچستان ایکسپریس کے بانی ایڈیٹر صدیق بلوچ ایک بہت اچھے انسان، کہنہ مشق صحافی، کالم نگار، دہائیوں سے بلوچستان کے بعض سلگتے ہوئے معاملات کی بہت اچھی تفہیم رکھنے والے دانشور، کئی صحافیوں کے استاد، لاتعداد صحافیوں اور لکھنے والوں کو کھلے دل کے ساتھ قیمتی مشوروں سے نوازنے والے، سخت حالات میں اپنے مشن پر ثابت قدم رہنے والے ایک اصول پسند انسان تھے۔ 5فروری 2010کو صدیق بلوچ کی وفات سے پاکستان ایک اچھے صحافی اور بلوچستان اپنے مسائل و مشکلات کی ترجمانی کرنے والے ایک بہت مخلص دانشور سے محروم ہوگیا۔
قاضی واجد
چالیس پچاس سال پہلے ریڈیو کو وہ مقام حاصل تھا جو آج ٹی وی کو حاصل ہے۔ ریڈیو پاکستان میں ان دنوں نہ صرف خبروں اور حالات حاضرہ کے شعبے میں بلکہ فنون میں تحریر، صداکاری، الفاظ و اشعار کی درست ادائی، الفاظ کے زیر و بم کے ذریعے تاثرات کے بھرپور اظہار پر بہت توجہ دی جاتی تھی۔ ریڈیو کے کئی پروڈیوسرزفنکاروں کیلئے اساتذہ کا درجہ رکھتے تھے۔ اس دور میں ریڈیو سے پاکستان کو بہت اچھے صداکار بھی ملے۔ ان میں سے کئی مرد و خواتین فنکاروں نے بعد میں ٹیلی وژن پر اپنی اداکاری کا بھی خوب لوہا منوایا۔ لیجنڈ اداکار محمد علی، مصطفی قریشی، ضیاء محی الدین، کمال احمد رضوی، طلعت حسین، قوی خان، خالد عباس ڈار، سید محمود علی، سبحانی بایونس، شکیل، اطہر شاہ خان، جمشید انصاری، سلیم ناصر، خیام سرحدی، عرفان کھوسٹ، شفیع محمد، ظفر صدیقی، محمد یوسف، عرشی منیر، روبینہ بدر، طاہرہ واسطی اور قاضی واجد ایسے ہی بلند پایہ فن کاروں میں شامل ہیں۔
اتوار11فروری کو قاضی واجد کے انتقال سے صداکاری اور اداکاری کا ایک منفرد باب تمام ہوا۔ قاضی واجد کردار کی نوعیت اور اس کی ترجمانی کے تقاضوں کو خوب سمجھتے تھے۔ ان کی صداکاری اور اداکاری پُروقار اور پُرشکوہ تھی۔

تازہ ترین