• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر داخلہ احسن اقبال نے امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے درست طور پر امریکہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ افغانستان میں امن کیلئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کو ڈرانا ، دھمکانا یا اس سے زور زبردستی کی کوشش کرنا غیر مفید ہوگا۔ پاکستانی وزیر داخلہ کا یہ مشورہ ایسی فضا میں سامنے آرہا ہے کہ امریکہ نے جماعت الدعوۃ اور اس سے ملحقہ فلاحی تنظیموں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے الزامات لگا کر اقوام متحدہ کی فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس میں پاکستان کو دہشت گردوں کا معاون ملک قرار دینے کی تحریک پیش کردی ہے جس پر آئندہ ہفتے پیرس میں منعقد ہونے والے اجلاس میں غور کیا جائیگا۔ دوسری جانب اتوار 11فروری کو سامنے آنے والے صدارتی آرڈیننس کے تحت انسداد دہشت گردی کے ایکٹ 1997ء میں ترمیم کی گئی ہے جس کا مقصد ان تنظیموں اور افراد کیخلاف کارروائی کرنا ہے جنہیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی فہرست میں اس مقصد کے لئے شامل کیا گیا ہے۔ مذکورہ آرڈی ننس کے نفاذ کے بعد کابینہ نے انسداد دہشت گردی کے نئے قواعد 2018ء کی منظوری دی جن کے تحت اثاثے منجمد کئے جاسکتے اور ان کا کنٹرول لیا جاسکتا ہے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے عاجلانہ اقدامات کا یہ عالم ہے کہ ایوان بالا (سینیٹ) کے پیر سے شروع ہونے والے اجلاس میں باضابطہ قانون سازی کا انتظار کئے بغیر آرڈی ننس کے ذریعے جماعت الدعوۃ اور اسکی ذیلی تنظیم فلاح انسانیت فائونڈیشن پر پابندی کے ساتھ صوبائی حکومتوں کو کارروائی کے احکام جاری کردیئے گئے۔ مگر واشنگٹن اور نئی دہلی کے تیور دیکھیں تو یہ کوشش نمایاں نظر آتی ہے کہ 2012ء سے 2015ء کے دورانیے کی طرح پاکستان کا نام دہشت گردوں کی معاونت کرنیوالے ملکوں میں پھر سے شامل ہو جائے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ مفتاح اسماعیل کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کی فنانشیل ٹاسک فورس میں پیش کردہ قرارداد کی منظوری رکوانے کے لئے برطانیہ، فرانس اور جرمنی سمیت کئی ملکوں سے سفارتی رابطے میں ہے۔اُدھر امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کو دی گئی سالانہ بریفنگ کو دیکھا جائے تو پاکستان کے خلاف کئے جانے والے اقدامات کی اصل وجہ کچھ اور معلوم ہوتی ہے۔ امریکی کانگریس میں تمام امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹوں کے حوالے سے اس بریفنگ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ امریکی نیشنل انٹیلی جنس کے سربراہ ڈین کوٹس نے اگرچہ یہ الزام دہرایا ہے کہ اسلام آباد دہشت گردوں کے خلاف نرمی سے پیش آرہا ہے مگر اسی بریفنگ میں پاکستان کے نئے جوہری ہتھیاروں، خاص طور پر چھوٹے ایٹم بموں اور طویل فاصلے تک سمندر اور فضا سے مار کرنے والے بیلسٹک اور کروز میزائلوں کا شکوہ معاملے کی ایسی جہت کی نشاندہی کر رہا ہے جس کے حوالے سے پاکستانی قوم کو پوری طرح چوکس رہنا ہوگا۔ امریکی نیشنل انٹیلی جنس کے سربراہ کے بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مختلف اقسام کے یہ ایٹم بم خطے کیلئے خطرات بڑھا رہے ہیں۔ ان ہتھیاروں میں اضافہ ہوتے رہنا اور انتہا پسندوں سے پاکستان کے مبینہ تعلقات دنیا کے امن اور امریکی مفادات کے لئے مسلسل خطرے کا باعث رہیں گے۔ رپورٹ میں نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان کشیدگی بڑھنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔اس پس منظر کو سامنے رکھ کر پاکستانی وزیر داخلہ کے اس بیان کی معنویت واضح ہوتی ہے کہ ’’پاکستان میں کسی بھی قسم کی یکطرفہ امریکی کارروائی ریڈ لائن ثابت ہوگی‘‘۔ اہم بات یہ ہے کہ افغانستان کے معاملات کا تجزیہ مخصوص علاقائی پس منظر اور سوچ کے حوالے سے کیا جانا چاہئے۔ افغان طالبان اگر امریکی عوام کے نام خط میں مذاکرات کی پیشکش کر رہے ہیں تو اس سے فائدہ اُٹھانے یا جنگ جاری رکھنے دونوں ہی صورتوں میں آخری فیصلے کیلئے پاکستان کی مدد سے بات چیت کی طرف آنا پڑیگا۔ پاک افغان بارڈر کے دونوں طرف آباد قبائل کے عمائدین اور بعض مذہبی شخصیتوں کے اثر و رسوخ کی اہمیت کو نظرانداز کرنے کی غلطی نہیں کی جانی چاہئے۔

تازہ ترین