• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ امرقابل تشویش ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ہمارے ہاں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک جاری ہے۔ یہ شرمناک حقیقت پاکستان میں خواتین کو بہم طبی و تعلیمی وسائل سے متعلق اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ کچھ یوں عیاں کرتی ہے کہ دیہی علاقوں میں مجموعی طور پر 98.8فیصد خواتین تعلیمی مراکز میں جانے سے قاصر ہیں جبکہ دیہی پشتون خواتین تعلیم سے بالکل ہی محروم ہیں اور طبی مسائل سے متعلق بھی فیصلہ خود نہیں کرسکتیں۔ سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گول (ایس ڈی جیز) 2030 کے تحت جاری رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی ہے کہ طے شدہ اہداف میں شامل خواتین کو دستیاب تعلیمی و طبی سہولیات سے متعلق حکومت کیا اقدامات کررہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پاکستان ان چار ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں 18سے 49سال تک 40لاکھ 90ہزار خواتین کو چار ایس ڈی جیز کے متعین کردہ انڈیکیٹرز سے محرومی کا سامنا ہے۔ ایس ڈی جیز کے 10سے 9انڈیکیٹرز سے واضح ہوتا ہے کہ انتہائی غربت میں زندگی گزارنے والی 20فیصد خواتین اور لڑکیاں دیہات میں جبکہ اتنی ہی شہروں میں ہیں۔ مذکورہ بالا رپورٹ کے مندرجات من حیث القوم ہمارے لئے پریشان کن ہیں۔ خواتین وطن عزیز کی آبادی کا تقریباً نصف ہیں، گویا ہم نے اپنی نصف آبادی کو تعلیمی اور طبی سہولیات سے پوری طرح بہرہ مند نہیں کیا۔ اسلامی تعلیمات کے برعکس اس پر تعلیم کے دروازے بند کر رکھے ہیں حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ایک مرد کی تعلیم ایک فرد کی جبکہ ایک خاتون کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ہے۔ بچے کی اولین درستگاہ ماں کی گود ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت کا کیا سامان کررہے ہیں۔ یہ بھی ایک کائناتی سچائی ہے کہ دنیا میں ترقی صرف انہی اقوام و ممالک نے کی جنہوں نے اپنی خواتین کو ہر شعبہ زندگی میں یکساں مواقع فراہم کئے۔ ہمیں تہذیب و تمدن اور ترقی یافتہ سماج درکار ہے تو خواتین کو صحت و تعلیم کی سہولیات ہی نہیں ترقی کے مواقع بھی فراہم کرنا ہوں گے۔

تازہ ترین