• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لودھراں کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ(ن) نے انتخابی معرکہ یقیناً کامیابی سے سر کرلیا ہے مگر اس سے ہر گز یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہئے کہ آئندہ عام انتخابات میںبھی مسلم لیگ(ن)پنجاب سے بھاری اکثریت حاصل کرلے گی۔ چونکہ ملک کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوچکا ہے اب محض ضمنی انتخابات میں کامیابی سے الیکشن2018پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا۔ ضمنی انتخاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حکومتوں کا الیکشن ہوتا ہے اور جو بھی حکومت ہوتی ہے اُس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اگرچہ پنجاب میں حلقہ این اے120،چکوال اور لودھراں کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ(ن) کا پلڑا بھاری رہاہے مگررواں سال جولائی یا اگست میں عام انتخابات بھی متوقع ہیں۔امید کی جارہی ہے کہ اس بار عوام سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو منتخب کرتے ہوئے ان کی کارکردگی کو ضرور پرکھیں گے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے بھی اپنے حالیہ عدالتی ریمارکس میں کہاہے کہ آئندہ شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کویقینی بنائیں گے۔ اگر عدلیہ کی زیر نگرانی جنرل الیکشن ہوں گے تو دھاندلی نہیں ہوسکے گی اور عوام کے حقیقی نمائندے ہی منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچیں گے۔ اس لیے مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو خاطر جمع رکھنی چاہئے اور عدلیہ کے خلاف بیانات دینے کی بجائے اپنی پانچ سالہ حکومتی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کرنا چاہئے۔ الیکشن میں ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے۔ ویسے بھی ضمنی الیکشن کوئی پیمانہ نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر سیاسی پارٹیوں کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جاسکے۔ روپے پیسے، دھونس اور دھاندلی کی سیاست کواب مکمل طور پر ختم ہونا چاہئے۔ جب تک عوام ملکی مفادات کو مدنظر رکھ کر اپنے نمائندے منتخب نہیں کریں گے اس وقت تک پاکستان میں خوشحالی نہیں آسکتی۔ آج تک جتنے بھی انتخابات ہوئے سب پر دھاندلی کے الزامات لگے۔ گزشتہ 2013کے انتخابات میں بھی دھاندلی کے الزامات لگائے گئے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے ضابطہ اخلاق میں ایک مخصوص رقم مختص کی ہے مگر بدقسمتی سے عام انتخابات اور ضمنی الیکشن میں بھی انتخابی امیدوار جیتنے کیلئے کروڑوں روپے لگا دیتے ہیں اور کوئی ان کی باز پرس کرنے والا نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن اب تک اپنے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کروانے میں عملی طور پر بری طرح ناکام رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ2018کے انتخابات کے تناظر میں الیکشن کمیشن ضروری اصلاحات کرے۔
لودھراں میں قومی اسمبلی حلقہ 154کی سیٹ تحریک انصاف کے جہانگیر ترین کی سپریم کورٹ میں نااہلی کے بعد خالی ہوئی تھی۔غیر حتمی نتائج کے مطابق مسلم لیگ(ن) کے امیدوار پیر اقبال شاہ نے جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کو26ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ عمران خان نے شکست کو تسلیم کرتے ہوئے کہاہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے آئندہ سبق سیکھیں گے۔ یہ ایک اچھی روش ہے۔ہمارے سیاسی کلچر میں ہمیشہ الیکشن ہارنے کے بعد ایک دوسرے پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے۔ انہوں نے لودھراں کے الیکشن میں الزام تراشیوں کی بجائے پی ٹی آئی کے امیدوار کی ناکامی کاجائزہ لینے کا ایک اچھا فیصلہ کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو عدلیہ اور عدالتی فیصلوں کا احترام کرنا چاہئے۔ یہ کہاں کی منطق ہے کہ اگر فیصلے اپنے حق میں آجائیں تو عدلیہ کے حق میں نعرے لگائے جاتے ہیں اگر فیصلہ مخالفت میں آئے تو عدلیہ کی توہین کی جاتی ہے۔ عدلیہ، فوج اور دیگر ریاستی ادارے جب تک مضبوط نہیں ہوں گے اُس وقت تک ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ مسلم لیگ(ن) کی عدلیہ اور ریاستی اداروں کے خلاف محاذ آرائی غیر دانشمندانہ اقدام ہے۔ ایسی صورتحال ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ اگر ہمیں مستقبل میں غیر جمہوری قوتوں کاراستہ روکنا ہے تو پھر سیاسی جماعتوں کو قومی اداروں سے ٹکرائو سے گریز کرنا ہوگا۔ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی بھی جمہوریت کے تسلسل سے ہی ممکن ہے۔ الیکشن 2018سے قبل ایک غیر جانبدار نگراں حکومت کا قیام عمل میں لایاجائے گا۔ نگراں حکومت اور عدلیہ کی موجودگی میں دھاندلی کرنا خاصا مشکل ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) کاپاناماکیس کافیصلہ آنے کے بعد سیاسی گراف خاصی حد تک گرچکا ہے۔ اب پنجاب میں اپنے امیدواروں کو جتوانے کے لئے سرکاری مشینری استعمال کرکے اسے مصنوعی سانسیں دی جارہی ہیں۔ ضمنی انتخاب میں حکمراں پارٹی کی کامیابی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں مخلوط حکومت بنے گی۔ کسی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔ مسلم لیگ(ن) پنجاب تک محدود ہو جائے گی اور پیپلزپارٹی سندھ میں حسب سابق اپنا اقتدار سنبھالے گی۔ اسی طرح متحدہ مجلس عمل بننے کے بعد کے پی کے اور بلوچستان میں ایم ایم اے کو اکثریت ملنے کا قوی امکان ہے۔ پنجاب سے مسلم لیگ(ن)، پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی تینوں جماعتوں کو انتخابات میں ملی جلی نشستیں ملیں گی اور اچھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ مسلم لیگ(ق) اور جماعت اسلامی کو بھی چند سیٹیں مل سکتی ہیں۔ کراچی میں بھی ایم ایم اے کوماضی کی طرح کامیابیاں مل سکتی ہیں۔ یہ ہوتا آیا ہے کہ جو پنجاب سے زیادہ مینڈیٹ لیتا ہے مرکز میں اُسی کی حکومت بنتی ہے مگر اس بار مسلم لیگ(ن) کو پنجاب سے ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ ملتا دکھائی نہیں دے رہا۔ وہی پرانا 2002والا سیاسی منظر نامہ بنتانظر آرہا ہے۔ واقفان حال کا مزید کہنا ہے کہ مسلم لیگ چونکہ اس وقت سیاسی طو پر منتشر دکھائی دیتی ہے۔ پاناما کیس اور نیب ریفرنسوں میں نوازشریف، مریم نواز، کیپٹن صفدر اور اسحاق ڈار کرپشن کے مقدمات میں بری طرح پھنس چکے ہیں اس لئے اب مستقبل میں ان کا کوئی سیاسی کردار دکھائی نہیں دے رہا۔ پاکستان کی سیاست کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ صاف نظر آرہا ہے کہ آئندہ حکومت مسلم لیگ(ن) کی نہیں بنے گی۔ کیونکہ ماضی گواہ ہے کہ جس حکومت نے پانچ سال پورے کئے ہیں وہ دوبارہ برسراقتدار نہیں آئی۔ 2008میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنی تھی لیکن 2013میں وہ سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی۔ اسی طرح 2002میں مسلم لیگ(ق) کی حکومت بنی تھی مگر 2008میں اُسے ناکامی ہوئی۔ اب مسلم لیگ(ن) بھی اپنے پانچ سال پورے کرنے والی ہے۔ پانچ ماہ بعد جب اُسے بھی عوامی عدالت میں جانا پڑے گا تو پھر قوم فیصلہ کرے گی کہ کس کو اقتدار میں لانا ہے اور کسے مسترد کرنا ہے۔

تازہ ترین