• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایگزیکٹ کیس، ضمانت کیلئے پیسے لینے پرجج برطرف، اب آئندہ کیا ہوگا؟

Todays Print

 اسلام آباد( رپورٹ:عمر چیمہ) اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے میں ضمانت کے لئے نقد رقم لینے کے اسکینڈل میں ایڈیشنل اینڈسیشن جج کو برطرف کردیا۔ آیا کیس یہیں ختم ہو گیا یارشوت دینے اور لینے والے کے خلاف مزید کارروائی بھی ہو گی؟یہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔ تاہم ریٹائرڈ جج صاحبان اور قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایگزیکٹ جعلی ڈگری اسکینڈل کے ملزم شعیب شیخ نے جس طرح سے عدلیہ کوکرپٹ کرنے کی کوشش کی، اس پر انہیں عبرتناک مثال بنا دینا چاہئے۔ برطرف جج نے اپنے مجرمانہ اقدام سے عوام کے اعتماد کو مجروح کیا۔ملزم کی نہ صرف ضمانت منسوخ ہو سکتی ہے۔ بلکہ جج اور ایگزیکٹ مالک کے خلاف مقدمہ از سرنو چلانے کا حکم بھی کیا جا سکتا ہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایگزیکٹ کیس میں گزشتہ جمعرات کو ’’ ایگزیکٹ چینل‘‘ کے سی ای او شعیب شیخ کو50لاکھ روپے لے کر بری کرنے کا الزام ثابت ہونے پر ایڈیشنل اینڈ سیشن جج پرویزالقادر میمن کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔ کیس سے واقف ذرائع کے مطابق مذکورہ جج اپنے متنازع فیصلوں پر کچھ عرصہ سے اعلیٰ عدلیہ کی نگرانی میں تھا۔ بالآخر جب پکڑا گیا تو رشوت قبول کرنے کے اعتراف کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں رہا۔ یہ بھی معلوم ہواکہ جس رقم کا مذکورہ جج سے وعدہ کیاگیا ہے، وہ اد ا شدہ رقم سے کہیں زیادہ تھی۔ اس جج کو 50لاکھ روپے کے علاوہ باقی ڈیڑھ کروڑ روپے ایک مغربی ملک کے دورے میں ادا کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد نے کہا کہ جرم کا ارتکاب کرنے پر جج اور شعیب شیخ دونوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملازمت سے برطرفی عدالت کا انتظامی فیصلہ ہے۔ اس کے تسلسل میں مزید اقدامات ہونے چاہئیں۔ جس کے تحت دوبارہ مقدمہ چلانے کاحکم بھی جاری کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمدنے بھی ارتکاب جرم پر مثالی سزا تجویز کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ سیاستدان، بیوروکریٹ، جج یا ایک بزنس مین کوئی بھی ہو، اس طرز زندگی اورذرائع آمدن میں مماثلت ہونی چاہئے۔ اس سے کچھ بھی بڑھ کر ہو تو سوال ضرور اٹھتا ہے اور مواخذے کی بھی ضرورت رہتی ہے ایک قانونی ماہر جو اپنا نام ظاہر کرنانہیں چاہتے، ان کاکہنا ہے کہ اس کیس کو آگےبڑھانے کا اسلام آباد ہائی کورٹ کو اختیار ہے۔ مزید تحقیقات کے لئے ایف آئی اے میں شکایت دائر کی جاسکتی ہے۔ جس کےنتیجے میں جج سے رشوت کی رقم بازیاب کرائی جاسکتی اورمزید یہ کہ 14 سال قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ اسی سزا کے شعیب شیخ بھی مستحق ہوں گے۔ دریں اثناء ایف آئی اے شعیب شیخ کی ضمانت منسوخ کرانے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرسکتی ہے۔ تاہم کیا کارروا ئی ہوتی ہے؟ ائندہ دنوں میں یہ وضح ہوجائے گا۔ کیونکہ ایسے کسی اقدام سے یہ نظیر قائم ہو جائے گی کہ عدلیہ خود کو ترتیب میں لانا چاہتی ہے۔ کچھ برس قبل ا نصار عباسی نے ایک منفرد اسکینڈل کا انکشاف کیا تھا۔ جس میں راولپنڈی کی احتساب عدالتوں کے فیصلوں سے متعلق تنازعات اوررسوا کن مماثلت کاذکرکیاگیاتھا۔یہ فیصلے احتساب عدالت نمبر III راولپنڈی نے 2011 میں کو ٹیکنا کیس اور احتساب عدالت نمبر IIنے ایس جی ایس کیس میں دیئے تھے۔ تاہم عدلیہ اور نیب دونوں نےانہیں نظرانداز کیا۔ یہ معاملہ نہ صرف ججوں کی بداعمالی سے متعلق ہی نہیں تھا بلکہ اس مقدمات کے فیصلے مشکوک انداز میں ملزمان کے حق میں ہوئے ان ججوں کو کسی سزا کے بغیر پنشن کے ساتھ ریٹائر ہونے کی اجازت دی گئی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ لاہور ہائی کورٹ کی انکوائری میں سنگین غلطیاں ثابت ہوئیں۔ مقدمہ دوبارہ نہیں چلایاگیا۔ان ججوں کے خلاف انکوائری اس لئے ختم کردی گئی چونکہ وہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ گئے تھے اس سے نہ صرف انہیں چھوٹ جانے میں مدد ملی بلکہ زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ رسواکن فیصلے ’’ماضی اور بند معاملہ‘‘ قراردے دیئے گئے کیونکہ کسی نے بھی فیصلوں کو ایک طرف رکھ کر مقدمات دوبارہ چلانے کی بات نہیں کی۔

تازہ ترین