• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

واچ لسٹ میں نام، پاکستان کی اقتصادی مشکلات بڑھیں گی

Todays Print

اسلام آباد، واشنگٹن ، ہانگ کانگ (رائٹرز) پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست میں ایک مرتبہ پھر شامل کیا جا سکتا ہےجس سے بیرونی دنیا سے اس کے روابط متاثر ہوسکتے ہیں، پاکستانی بینکوں کو بین الاقوامی سطح پر لین دین میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے، تجزیہ کاروں کے مطابق واچ لسٹ میں نام شامل کئے جانے پر اسلام آباد پر معاشی دبائو بڑھایا جائے گا، پاکستان پر اقتصادی شرح پیداوار کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے، سینئر پاکستانی عہدیدار کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں سزا دی گئی تو یہ ایک سیاسی اور انتقامی اقدام ہوگا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستانی معیشت کو پیچیدگیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گاایک ایسے موقع پر کہ جب ملک میں الیکشن کا وقت آپہنچا ہے۔اگلے ہفتے کے دوران بین الاقوامی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کا اجلاس فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں ہو رہا ہے۔ اس اجلاس کے لیے امریکا اور اُس کے یورپی اتحادیوں نے قرارداد جمع کرائی تھی۔ ٹاسک فورس کا اجلاس طلب کرنے کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ایسی جوہری طاقت کی حامل ریاستوں کی نگرانی کی جائے جو دہشت گردوں کی مالی معاونت کے علاوہ منی لانڈرنگ کے ضوابط کا احترام نہیں کرتی ہیں۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ قرارداد اور اس کے ممکنہ نتیجے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ امریکی حکومت کی وسیع تر اسٹریٹیجی کی عکاس ہے۔ اس قرارداد کے ذریعے حاصل ہونے والے ممکنہ فیصلے سے پاکستان پر معاشی دباؤ بڑھایا جائے گا تا کہ وہ افغانستان میں عدم استحکام کا باعث بننے والے عسکریت پسندوں کی مبینہ حمایت سے پیچھے ہٹ جائے۔اگر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو اپنی ’’واچ لسٹ‘‘ میں شامل کر دیا تو پاکستانی حکومتی اہلکاروں کی نقل و حمل کے ساتھ ساتھ اُس کے بینکوں کو بین الاقوامی لین دین میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ٹاسک فورس کی جانب سے پاکستان کو زیرنگرانی ممالک میں شامل کرنے سے اُس کی اقتصادی شرح پیداوار کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔دوسری جانب پاکستان عسکریت پسندوں کے ساتھ رابطوں کی تردید کرتا ہے۔ اسلام آباد حکومت کا دعویٰ ہے کہ اُس نے انسدادِ دہشت گردی کے قوانین میں سختی پیدا کرتے ہوئے دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو مزید محدود کر دیا ہے۔ پاکستانی وزارت خزانہ کے ایک سینئر اہلکار کے مطابق بظاہر ٹاسک فورس کی جانب سے ایسا کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے تو اِس کے بہت شدید اثرات تو مرتب نہیں ہوں گے لیکن اس کو ایک اچھا فیصلہ بھی قرار نہیں دیا جا سکے گا۔ عسکری کامیابیوں اور چین کی جانب سے انفراسثرکچر میں سرمایہ کاری نے ملکی معیشت کچھ حد تک بحال ہوئی ہے جس ایک طویل عرصے سے شدت پسندی اور 2008 اور 2009 کے معاشی بحران کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستانی حکام رواں مالی سال معاشی وسعت کو 6 فیصد تک لے جانے کے لئے پرعزم ہیں اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی حکمراں جماعت عام انتخابات سے قبل معاشی ترقی کی رفتار میں کسی بھی سست روی کے روکنے کے خواہاں ہیں جو کہ 6 ماہ میں منعقد ہونا ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی واچ لسٹ میں نام شامل کئے جانے کے باعث براہ راست کوئی قانونی پابندیاں نہیں ہوں گی تاہم اس کے باعث ریگولیٹرز اور معاشی اداروں کی جانب سے اضافی جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑے گا جس کے باعث تجارت اور سرمایہ کاری میں کمی ہوسکتی ہے اور ٹرانزیکشن کے اخراجات میں اضافہ ہوگا۔ لندن میں کرک لینڈ اینڈ الیز نامی لاء فرم کے شراکت دار مائیک کیسی کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست میں دوبارہ نام شامل کئے جانے کی صورت میں پاکستان کے خدشے کی پرو فائل میں اضافہ ہوگا اور معاشی ادارے پاکستانی بینکوں اور ان کے شراکت داروں سے رقوم کے تبادلے سے کترائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بزنس سے متعلق قانونی خدشات اور معاشی فوائد میں کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے ادارے پاکستان کیساتھ کاروبار سے گریز بھی کرسکتے ہیں۔ بیرونی ٹرانزیکشنز میں کمی اور غیر ملکی کرنسی کے بہائو میں کمی سے پاکستان کا پہلے سے موجود بھاری خسارہ مزید بڑھے گا، جس کے باعث معیشت خطرے کے زد میں ہوگی اور اس کی ناکامی کا خدشہ ہوگا۔ اس کیساتھ ساتھ ایک اور بڑی مشکل یہ پیش آئے گی کہ وہ یہ کہ اسٹینڈرڈ چارٹرڈ، جو کہ پاکستان میں سب سے بڑا انٹرنیشنل بینک ہے اور اس کی 116 شاخیں ہیں، یا سٹی بینک اور ڈوئچے بینک جیسے بینکس دستبردار ہوجائیں گے جو زیادہ تر کارپوریٹ صارفین کےساتھ کاروبارہ کرتے ہیں۔ بینکس حالیہ برسوں میں ایسے ممالک سے ہیچھے ہٹے ہیں جو ہائی رسک پر ہیں جس کی وجہ عالمی ریگولیٹرز کی جانب سے شدید دبائو کا شکار ہیں جو منی لانڈر نگ اور دہشتگردوں کی مالی مدد سے روکنے کے خواہاں ہیں۔ ایک بڑے غیر ملکی بینک کے سینئر ایگزیکٹو جن کے پاکستان میں کاروباری مفادات بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں کاروبارکو درپیش خدشات پہلے ہی زیادہ ہوتے ہیں تاہم اگر مذکورہ کارروائی ہوئی تو بینکوں کو خدشات سے متعلق منظر نامے کے حوالے سے دوبارہ سے غور کرنا ہوگا۔ یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ برس پاکستان کے ایک بڑے مالی ادارے حبیب بینک کو نیویارک سٹی میں قائم بینکنگ سیکٹر کی نگرانی کرنے والے امریکی ادارے نے 225 ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ اس جرمانے کی وجہ حبیب بینک کا منی لانڈرنگ کے ضوابط کے منافی اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے کی سرگرمیاں خیال کی گئی تھیں۔ اس جرمانے کے بعد حبیب بینک امریکا میں اپنا آپریشن بند کرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ ہانگ کانگ میں مشاورتی کمپنی کوئنلان ایسوسی ایٹس کے اعدادوشمار کے مطابق امریکی واچ ڈاگز نے اینٹی منی لانڈرنگ کے قواعد وضوابط میں عملدرآمد پر ناکامی پر 2009 کے آخر سے اب تک 16 ارب ڈالر کے جرمانے عائد کئے ہیں۔ غیر ملکی بینک کے ایگزیکٹو نے مزید کہا کہ کوئی بھی ایسی صورتحال میں نہیں پھنسنا چاہتا جہاں کروڑوں ڈالرز کے کاروبار کے لئے بینکوں کو اربوں ڈالرز کے جرمانے بھرنا پڑیں۔ فوری طور پر ایسے کوئی اشارے نہیں ملے کہ پاکستان میں موجود چند عالمی بینکس یہاں سے نکلنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور بینکنگ زرائع کا کہنا ہے کہ یہ بینکس پاکستان میں آپریٹنگ کے خطرات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ سٹی بینک نے اپنے ایک اعلامیہ میں کہا ہے کہ ان کا ادارہ امریکا اور عالمی انسداد منی لانڈرنگ قوانین اور معاشی پابندیوں پر عملدرآمد کررہا ہے۔ اسٹینڈرڈ چارٹرڈ کا کہنا ہے کہ وہ صورتحال کو انتہائی قریب سے دیکھ رہے ہیں اور پالیسی کے مطابق ہم مارکیٹ سے متعلق پیش گوئیوں پر تبصرہ نہیں کرسکتے۔ اس حوالے سے ڈوئچے نے تبصرے سے انکار کردیا۔ ایف اے ٹی ایف کا خطرہ پاکستان کی اسٹاک ایکسچینج پر بھی اثر اندازو ہوسکتا ہے اگرچہ مقامی تاجروں کا کہنا ہے کہ ملکی کمپنیاں سخت حالات میں کام کرنے کی عادی ہیں۔ کچھ لوگ ابھی بھی خوفزدہ ہیں۔ ایک پاکستانی منیجر جو متبادل انویسمنٹ فنڈ متعارف کروارہے ہیں کا کہنا ہے کہ انہیں خدشات ہیں کہ ان کے نئے منصوبے کو امریکی اور یورپی سرمایہ کاری حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ فنڈ منیجر نے کہا کہ پاکستان میں رقم جمع کرنا پہلے ہی ایک مشکل کام ہے اور دہشتگردوں کی واچ لسٹ میں نام شامل کئے جانے جیسے معاملے سے لوگ مزید خوفزدہ ہوں گے۔ اس کے بعد مزید جانچ پڑتال ہوگی اور کچھ غیر ملکی فنڈز واپس بھی جاسکتے ہیں۔ پاکستانی وزارت خزانہ کے ایک زریعہ کا کہنا ہے کہ حکومت کو خدشات ہیں کہ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیز کی جانب سے ان کا درجہ کم کیا جاسکتا ہے جس کے باعث پاکستان کو عالمی مارکیٹس سے قرضے کے حصول میں مزید مشکل یا پھر یہ مزید مہنگا ہوسکتا ہے۔ وزیرمملکت برائے خزانہ رانا افضل کا کہنا ہے کہ اس سے دنیا میں ہماری ساکھ متاثر ہوگی جو کہ ناانصافی ہوگی۔ چند پاکستانی حکام کہتے ہیں کہ حافظ سعید کیخلاف حالیہ اقدامات کے بعد ملک میں اس حوالے سے اعتماد بڑھا ہے کہ یہ مزید کارروائی سے روکنے کے لئے کافی ہوگا جو کہ ایف اے ٹی ایف کی تحریک کا مرکز تھے۔ ایک سینئر پاکستانی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنا کام کردیا ہے تاہم ہمیں امید کم ہی نظرآتی ہے۔ اگر ہمیں سزا دی گئی تو یہ ایک سیاسی اور انتقامی اقدام ہوگا۔

تازہ ترین