• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کو سیاسی معاملات میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہئے، علی احمدکرد

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“میں ماہر قانون علی احمد کرد نے گفتگو کرتےہوئے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں بہت نقصان ہوچکا ہے جو مزید بڑھتا جارہا ہے، پاناما فیصلے کے بعد سے ن لیگی قیادت کا لہجہ دن بدن جارحانہ ہوتا جارہا ہے، ن لیگی قیادت کو جارحانہ رویہ اختیار کرنے کیلئے مواد سپریم کورٹ کورٹ روم نمبر ون سے مل رہا ہے، جج صاحبان کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اس وقت الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے، سات پردوں میں کی جانے والی بات بھی جب کیمرے پر جاتی ہے تو لاکھوں لوگ اسے اپنی مرضی کے معنی دینے میں آزاد ہوتے ہیں، سپریم کورٹ سیاسی معاملات کو ڈیل کرنے میں لگ گئی جو درست نہیں ہے، عدلیہ پر تنقید کا نقصان سیاسی جماعتوں کو نہیں سپریم کورٹ کو ہوگا، سپریم کورٹ کی کارکردگی پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔ علی احمد کرد کاکہنا تھا کہ عدالتوں کو بہت محتاط ہو کر بات کرنی چاہئے، دنیا کے سامنے بات آنے کے بعد وضاحت کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا ہے، کیسوں کی سماعت میں ججوں کے ریمارکس کا غلط اثر ہورہا ہے، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وکیل اپنے دلائل دینا شروع نہیں کرتے کہ ججوں کی طرف سے ریمارکس آنے شروع ہوجاتے ہیں، ججوں کو وکیل کو دلائل دینے کا موقع دینا چاہئے ،جب ججوں کی طرف سے آبزرویشن آجائیں تو وکیل ڈسٹرب ہوجاتا ہے، اس صورتحال میں وکیل عدالت کی مدد نہیں کرسکتا اور غلط فیصلے آنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ علی احمد کرد نے کہا کہ اگر کورٹ نمبر ون میں آبزرویشنز آنی بند ہوجائیں تو لوگ نواز شریف اور مریم نواز کی عدلیہ مخالف باتوں کو بھی پسند نہیں کریں گے، جج صاحبان اگرا ٓبزرویشنز دینا بند کردیں تو مریم نواز ایک گھنٹے بھی بات کرتی رہے ایک غلط بات نہیں کرسکے گی، یہ سمجھدار لوگ ہیں اس وقت بات کرتے ہیں جب انہیں پتا ہوتا ہے کہ ہمارے بات کرنے کا جواز ہے، جج صاحبان جو فیصلہ دینا چاہے دیں آبزرویشنز بند کردیں، اس کے بعد عدلیہ کا امیج بہتر ہونا شروع ہوجائے گا۔ علی احمد کرد کا کہنا تھا کہ بات توہین عدالت بہت آگے چلی گئی ہے، جب سپریم کورٹ سے گاڈ فادر، سسیلین مافیا اور چور ڈاکو جیسے الفاظ آئیں گے تو دوسرے فریق جواب دینے کا حق رکھتا ہے، توہین عدالت کی چیزوں کو درگزر کردیا جائے، سیاسی رہنماؤں کو عزت دی جائے گی تو وہ بھی عدالت کی عزت کرنے کے پابند ہیں، اس وقت نواز شریف اور مریم نواز کے سامنے سپریم کورٹ ہے، اس کا مطلب آپ ان لوگوں کے سامنے آکر کھڑے ہوئے ہیں، سپریم کورٹ کو سیاسی معاملات میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہئے، اس کا نقصان سیاسی جماعتوں کو نہیں عدالتوں کو ہورہا ہے۔ سابق جج سندھ ہائیکورٹ جسٹس شائق عثمانی نے کہا کہ اگر کسی جج نے رشوت لے کر کسی کو بری کیا ہے تو اسے سزا دینا بہت لازمی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے جمعے کو ایگزیکٹ کیس میں رشوت لے کر ملزمان کو بری کرنے والے جج کو سزا بھی دیدی ہے، شعیب شیخ کا معاملہ لمبا ہے وہ جلدی طے نہیں ہوگا اس کیلئے کیس کی کارروائی چلے گی، شعیب شیخ کو رشوت دینے کی سزا تو الگ ہوسکتی ہے لیکن جس غلط کام کا اس پرا لزام لگ رہا ہے بنیادی معاملہ وہ ہے جسے سپریم کورٹ دیکھے گی، جج نے رشوت لے کر ایسا فیصلہ کیا جو اسے نہیں کرنا چاہئے تھا، جج کا رشوت لینا الگ فعل تھا جس کی اسے سزا مل گئی ہے، جس شخص نے اس جج کو رشوت دے کر غلط کام کرنے پر مجبور کیا وہ ایک الگ جرم ہے جس کا الگ ٹرائل ہوگا جس میں الزام ثابت ہونے کے بعد سزا ہوگی۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں کہا کہ دبئی میں سرمایہ کاری کرنے والے ہزاروں پاکستانیوں کی تفصیلات آہستہ آہستہ سامنے آرہی ہیں، تحقیقاتی ادارے سرگرم ہیں اور مزید تفصیلات جمع کی جارہی ہیں، متحدہ عرب امارات کی حکومت نے 31پاکستانیوں کی 60ارب روپے مالیت کی 55جائیدادوں کی تصدیق کردی ہے، ان میں صرف چھ پاکستانی ایسے ہیں جنہوں نے قانون کے مطابق ایف بی آر میں یہ اثاثہ ظاہر کیا ہوا ہے باقی 25افرا د نے ایف بی آر کو بتانا ضروری نہیں سمجھا ہے،ہم نے اپنے پروگرام میں سات ہزار سے زائد پاکستانیوں اور گیارہ سو ارب روپے سے زیادہ کی جائیدادوں کا انکشاف کیا تھا، ہماری تحقیقات جاری ہے اور نام مسلسل بڑھتے جارہے ہیں، یہ نام ہم آپ کے سامنے رکھتے ہیں، ہمارے پاس ہزاروں پاکستانیوں کے نام ہیں مگر ایف بی آر کی دستاویزات کے مطابق جن افراد کی تصدیق حکام نے کردی ہے ان میں سب سے معروف نام علیمہ خان صاحبہ کا ہے جو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی بہن ہیں، ذرائع کے مطابق عمران خان کی بہن علیمہ خان نے دبئی کی جائیداد ایف بی آر میں ظاہر نہیں کی، اہم بات یہ ہے کہ جب ہم نے دبئی میں ہزاروں پاکستانیوں کی جائیدادوں کا انکشاف کیا تو خود عمران خان نے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا، ایف بی آر کی دستاویزات کے مطابق عدنان احمد خان، عبدالقادر بشیر، اشفاق عالم خان، شیخ محمد، ندیم اختر، نورین سمیع خان، ڈاکٹر کامران مسعود، سفینہ سمیعہ کھر ، ڈاکٹر حامد حسن، آصف نثار، عدیل انور، خلیل احمد، ڈاکٹر منصور الحق اور دیگر کے نام اس فہرست میں شامل ہیں مگر انہوں نے ایف بی آر کے سامنے یہ اثاثہ ظاہر نہیں کیا۔ میزبان نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ سے نااہلی کے فیصلے پر نواز شریف سخت زبان استعمال کررہے ہیں، اپنے والد کی طرح بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر ان کی بیٹی مریم نواز کے لہجہ کی تلخی بھی بڑھتی جارہی ہے،مانسہرہ میں سوشل میڈیا کنونشن سے خطاب میں مریم نواز نے براہ راست چیف جسٹس پاکستان کو مخاطب کیا اور کہا کہ عمران خان جیسی زبان استعمال کریں گے، مخالفین جیسی زبان استعمال کریں گے تو اس کا جواب بھی ویسا ہی ملے گا جیسا سیاسی مخالفین کو دیا جاتا ہے، مریم نواز نے نہ صرف عدالتی ریمارکس سے اپنی آئندہ کی حکمت عملی بتائی بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ غلط عدالتی فیصلوں پر تنقید دنیا کی کسی عدالت میں توہین نہیں سمجھی جاتی، ساتھ ہی اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی طرف سے آنے والے حالیہ ریمارکس کو ضمنی انتخاب کے حالیہ نتیجے سے جوڑ دیا اور کہا کہ جس دن کسی عوامی عدالت سے نواز شریف کے حق میں فیصلہ آتا ہے اسی دن عدالت عالیہ سے نئی گالی سنتے ہیں، انہوں نے سوال کیا کہ ایسا کر کے کون سے آئین کی تشریح کی جارہی ہے، مریم نواز نے نہ صرف یہ بتایا کہ جو ہم کررہے ہیں وہ توہین نہیں ہے بلکہ ساتھ میں یہ بھی کہا کہ اصل میں توہین کیا ہے ، مریم نواز نے انصاف اور عدل کی توہین کرنے والے کو اصل میں توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا، مریم نواز نے سوال کیا کہ عوام کے ووٹ کو ردی میں پھینکنا کیا ڈاکا نہیں ہے، مریم نواز نے چیف جسٹس کا نام لیے بغیر کہا کہ جو درست فیصلے کرتے ہیں انہیں وضاحتوں اور قسمیں کھانے کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کیلئے ٹی وی پر طویل تقریریں کرنا پڑتی ہیں، مریم نواز نے عدالتی فیصلوں اور ججوں کے ریمارکس پر تنقید کے ساتھ عمران خان اور پرویز مشرف کو توہین عدالت میں پکڑنے کا مطالبہ بھی کیا۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز عدالت سے متعلق سخت زبان استعمال کررہے ہیں، نہ صرف ججوں کے ریمارکس پر تنقید کی جارہی ہے بلکہ اس کا جواب بھی دیا جارہا ہے، اس حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان نے جمعے کو ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ ہم نے گزشتہ روز کہا تھا کہ سارے لیڈرز مقدم ہیں، ایک صورتحال سمجھنے کی کوشش کررہے تھے کہ اگر کوئی مختلف بندہ پارٹی سربراہ بن جائے تو کیا ہوگا، پھرا ٓگے میڈیا نے اس معاملہ کو پکڑ کر کیا سے کیا کردیا، اس پر ہم اب کیا کہہ سکتے ہیں، کیس سنتے ہیں اور کوشش ہوتی ہے کہ انصاف ہی ہو، چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ ریمارکس گزشتہ روز پارٹی صدارت کیس کی سماعت کا حوالہ دیتے ہوئے کہے، گزشتہ روز نااہل شخص کی پارٹی صدارت کیس میں چیف جسٹس نے سوال کیا تھا کہ کیا کوئی شخص جرم کرنے کے بعد جیل سے بھی پارٹی چلا سکتا ہے جس پر ن لیگ کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ جی ہاں نیلسن منڈیلا کی مثال موجود ہے، اس دلیل پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ نیلسن منڈیلا سیاسی وجوہات کی بنیاد پر سلاخوں کے پیچھے تھے، نیلسن منڈیلا منشیات فروش یا ڈاکو نہیں تھے۔

تازہ ترین