• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عجب بے چارگی والا زمانہ ہے۔ وقت ہے کہ بھاگا جا رہا ہے۔ کام ہوتے بھی نہیں اور کام لوگوں کے رکتے بھی نہیں۔ معلوم نہیں اتنے سال پہلے صاحب یقین شاعر اسد اللہ غالب کو کیا سوجھی کہ فرنگی کے بھرپور زمانہ میں یہ شعر کہہ دیا۔
کیا کہا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی
اب کا زمانہ بھی کسی فرنگی کے زمانہ سے کم نہیں فرق اتنا ہے کہ اب ہمارے زمانہ میں غالب نہیں ہے اور ایک بے چارہ شاعر انقلاب حبیب جالب تھا جو انقلاب کے خواب دیکھتا تھا اور لوگوں کی بے بسی اور حکمرانوں کی بے پروائی پر لکھتا بھی تھا جب میں آ ج کے سیاستدانوں اور افسر شاہی کی ملی بھگت سے جمہوریت کا پرچار ہوتا دیکھتا ہوں تو مجھے عوام پر نہیں۔ جمہوریت پر رحم آ تا ہے۔ ہماری آج کی نو خیز جمہوریت اقتدار اور اختیار کے غنڈوں میں پھنس گئی ہے۔اور بے چاری بے توقیر تو ہو رہی ہے اور اس کا کردار ملکی نظام میں نہ ہوتے ہوئے بھی خاصا مشکوک ہو گیا ہے۔ آج ہمارےملک کا دستور عوام کو بہت سارے حقوق دیتا ہے۔ مگر سرکار میں اتنا حوصلہ بھی نہیں کہ وہ حق اور حقوق کی بات بھی سن سکیں۔
اب تو تمام لوگوں کو حق او رحقوق کے لئے بڑی عدالت میں جا کر داد رسی کی فریاد کرنی پڑتی ہے۔ پاکستان کی بڑی عدالت آجکل بہت ہی مصروف ہے ۔ مقام شکر ہے کہ عدالت میں حوصلہ اور ہمت ہے۔ وہ آجکل دستور کے حوالہ سے قانون کا جائزہ بھی لے رہی ہے۔ کچھ معاملات میں دستور خاموش نظر آتا ہے۔ اس کا فیصلہ کون کرے!بڑی عدالت قانون کی تشریح تو کر سکتی ہے کوئی نیا قانون نہیں بنا سکتی ہے اور اس کا اختیار عوامی نمائندوں کو ہے۔ مگر جب عوامی نمائندے جمہوریت کو نظر انداز کریں اور تبدیلی تو ممکن ہے ۔ مگر انقلاب کا خواب ادھورا ہی رہے گا پھر ہم لوگ انقلاب پر یقین بھی نہیں رکھتے۔ اس وقت کچھ لوگ تبدیلی کی خبر دیتے ہیں مگر آج تو یہ حال ہے کہ خبر پر یقین کرنا مشکل ہے ۔ ہمارا میڈیا اگر خبر دیتا بھی ہے تو نظریہ سازش کی بو آنے لگتی ہے۔ایک زمانہ میں سازش کا سارا زور سیاست میں ہی نظر آتا تھا اور اب تو سازش کا نظریہ پورے سماج میں پھیلا نظر آتا ہے اور ایسے سیاسی اور سازشی نظریات جمہوریت بی بی کو مسلسل خوف زدہ کرتے رہتے ہیں۔
حبیب جالب میں تو ہمت تھی کہ وہ سرکاروقت کے خلاف سچ بولے۔ حبیب جالب کا سچ ہمارے پنجاب کے خادم اعلیٰ کو بھی بہت پسند ہے۔ کمال کی بات ہے کہ پہلے وہ بہت عرصہ پنجاب کے صوبے دار کی حیثیت کو پسند کرتے تھے پھر جمہور کے سبب ان کا نظریہ بھی بدلا اور انہوں نے خادم اعلیٰ کا لقب پسند فرمایا۔ اصل میں حبیب جالب نے جب یہ کہا تھا۔
یہ جو دس کروڑ ہیں ۔
جہل کا نچوڑ ہیں
اس وقت آبادی دس کروڑ ہی ہو گی اورفیلڈ مارشل ایوب خان کی سرکار تھی اور لوگ جہالت کے سبب انقلاب کو غیر اسلامی خیال کرتے تھے جو بے چارہ جالب اور کیا کہتا مگر یہ بات اتنے عرصہ کے بعد ہمار ےصوبے دار صاحب بسیار کو اچھی لگی کہ جہالت میں اضافہ ہی ہوا۔ لوگوں کو ووٹ کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ۔ انتخابات ان کے نزدیک ایک غیر ضروری عشق ہے اور اب تو کئی دفعہ یہ مشق آزمائی جا چکی ہے۔ اس سے عوام کی قسمت تو نہیں بدلی۔ مگر سیاسی اشرافیہ مال و مال ضرور ہو گئی۔
جب خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ترنم سے پڑھنا شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ اب انقلاب زیادہ دور نہیں۔ جالب نے تو یہ شعر اس وقت لکھے تھے ۔ جب بنیادی جمہورتوں کے حوالہ سے دستور بنایا گیا تھا۔ بنیادی جمہوریت تو کیا آنا تھی۔ ملک ہی تقسیم ہو گیا اور اس ہی وجہ سے جالب نے اعلان حق کیا تھا اور ہمارے خادم اعلیٰ کو تو اتنا بھایا کہ وہ اس کو سنا کر لوگوں کو گرماتے تھے۔
دیپ جن کا محلات میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا
اب تو وہ جالب کو اتنا نہیں سناتے انہوں نے پنجاب کے کچھ شہروں کی تقدیر تو بدل دی ہے مگر پنجاب کی قسمت بدلتی نظر نہیں آ رہی۔ مسلم لیگ(ن) آج کل کی نئی سیاست سے پریشان نظر آ رہی ہے ۔ عام انتخابات کا وقت قریب آ رہا ہے اور اس سے پہلے سینیٹ کے انتخابات ہونے ہیں اور جن کی تیاری مکمل ہو چکی ہے۔
اب تو سب لوگوں کو انتخابات کا انتظار ہے جو ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ تمام سیاسی اشرافیہ انتخابات سے خوف زدہ ہے ۔ صوبہ بلوچستان میں سرکارمیں تبدیلی بظاہر تو جمہوریت کے اصولوں کے مطابق ہوئی۔ مگر اس پر اعتبار کرنا مشکل لگ رہا ہے اب سینیٹ کے انتخابات کا معاملہ شروع ہے اور جس طریقہ سے سینیٹ کے ممبران کا انتخاب ہونا ہے وہ شفاف نہیں۔ ایک کاروباری سا معاملہ بن گیا ہے۔ ووٹ دینے والے آزاد ہیں اور وہ مرضی سے کچھ بھی کرسکتے ہیں یہ ہے وہ جمہوریت جس نے ملک میں انتشار پیدا کر رکھا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات کے بعد عبوری سرکار کی بات ہو گئی۔ دستور اس معاملہ کی رہنمائی نہیں کرتا حالیہ اسمبلی کے لوگوں نے کرنا ہے اور معاملہ آخر کار اعلیٰ عدالت کے پاس جائے گا اور عبوری سرکار کے لئے رہنمااصول بنائے جائیں گے اور عبوری حکومت اگلے انتخابات کے لئے کردار ادا کرے گی۔ وہ کردار کن لوگوں کو ملتا ہے وہ ہی آج کل طے ہو رہا ہے۔ بس ڈر یہ ہے کہ پھر کوئی نعرہ نہ لگائے، میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا۔ایسے دستور کو۔۔۔۔

تازہ ترین