• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تیز ترین انصاف،معصوم زینب کے قاتل کو 4بار سزائے موت،قید اور جرمانہ

Todays Print

لاہور(نمائندہ جنگ، آئی این پی) انسداد دہشت گردی عدالت لاہور نے ملکی تاریخ کا تیز ترین ٹرائل کر کے زینب کے قاتل عمران علی کو 4مرتبہ موت، 32 سال قیداور مجموعی طور پر 31لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنیکی سزا سنا دی، خصوصی عدالت کا فیصلہ 85صفحات پر مشتمل ہے،زینب کے والداور والدہ کا کہنا ہے کہ وہ عدالتی فیصلہ سے مطمئن ہیں مجرم عمران علی کو سرعام پھانسی دی جائے، پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ ملکی تاریخ کا پہلا کیس جس کا فیصلہ سائینٹیفک شہادتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔پراسیکیوٹر جنرل احتشام قادر نے میڈیا کو فیصلے کی تفصیلات سے آگاہ کیا، خصوصی عدالت نے اس سفاک درندے کو معصوم زینب کے اغوا،اس سے زیادتی،اسے قتل کرنے اور دہشت گردی کے جرائم پر موت کی سزا سنائی جبکہ معصوم بچی سے زیادتی پر عمر قید اور اس کی نعش کو غائب کرنے اور پھر کوڑے کے ڈھیر میں چھپانے پر 7سال قید کی سزا بھی سنائی، عدالت نے مجرم کو مجموعی طور پر 31لاکھ روپے جرمانہ اور معصوم زینب کے لواحقین کو 10لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے کا بھی حکم سنایا،زینب کیس پاکستان کی تاریخ کا تیز ترین ٹرائل بن گیا، لاہور ہائیکورٹ نے 7روز میں ٹرائل مکمل کرکے فیصلہ سنانے کا حکم دیا تھا مگر انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے 4دن میں 11گیارہ گھنٹے مسلسل سماعت کرکے ٹرائل مکمل کرتے ہوئے چھٹے روز ملزم کو سزا سنادی،زینب کیس پاکستان کی تاریخ کا پہلا کیس ہے جس کا فیصلہ سائینٹیفک شہادتوں کی بنیاد پر کیا گیا، کوٹ لکھپت جیل میں قائم انسداد دہشت گردی لاہور کی خصوصی عدالت کے جج سجاد احمد نے کوٹ لکھپت جیل میں فیصلہ سنایا،عدالت کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے وقت زینب کے والد، چچا اور بھائی کے علاوہ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب احتشام قادر، پراسیکیوشن کی ٹیم،ملزم عمران بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے،عدالت نے فیصلہ سنانے سے قبل 2بار فیصلے کا جائزہ لیا اور پھر فیصلہ سنا دیا، فیصلہ کے تحت تعزیرات پاکستان کی دفعہ 364اےکے تحت سزائے موت، دفعہ 376بی کے تحت سزائے موت اور 10لاکھ روپے جرمانہ عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں 6ماہ قید، دفعہ 302بی سزائے موت اور 10لاکھ روپے زینب کے قانونی وارثان کو بطور معاوضہ ادا کرنے حکم،عدم ادائیگی کی صورت میں 6ماہ قید،اے ٹی اے 1997کے سیکشن 7 بی کے تحت سزائے موت اور 10لاکھ روپے جرمانہ عدم ادائیگی جرمانہ پر مزید 6ماہ قید،تعزیرات پاکستان کی دفعہ 377 کے تحت عمر قید اور 10لاکھ روپے جرمانہ،عدم ادائیگی پر 6ماہ قید اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 201 کے تحت 7سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ عدم ادایگی پر 3ماہ کی قید کی سزا سنائی گئی، دوران سماعت پراسکیوٹر کی جانب سے ملزم کے خلاف 56 گواہان پیش کیے گئے جن میں سے 32 کی شہادتیں عدالت نے قلمبند کیں، عدالت میں پیش کی جانے والی فرانزک رپورٹس کے مطابق عمران ہی زینب کا قاتل ہے، ملزم کی ڈی این اے رپورٹ اور پولی گراف ٹیسٹ مثبت آیا، وقوعہ کی 4سی سی ٹی وی فوٹیجز چالان میں شامل کی گئیں جو ملزم کی نشاندہی ظاہر کرتی تھیں، ملزم کی ویڈیوز اور آڈیوز کی ٹیسٹ رپورٹس کے مطابق ملزم کی آواز بھی میچ ہوئی، زینب کے کپڑوں پر موجود خون اور ملزم کے خون کے ڈی این اے میچ ہوئے، عدالت میں جو پوسٹ مارٹم رپورٹ پیش کی گئی اسکے مطابق زینب کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا، دوران سماعت سرکاری وکیل نے بتایا تھا کہ پوسٹ مارٹم کو مکمل عکس بند کیا گیا اور وہ ریکارڈ محفوظ ہے جبکہ محکمہ شماریات سے ایک کلومیڑ کے حصے کا ہر گھر کے مرد افراد کا ڈیٹا لیا گیا اور یکم جنوری سے 9؍ جنوری تک مخصوص علاقے کی جیو فینسنگ بھی کروائی گئی، ملزم کو 23 جنوری کو قصور قبرستان کے قریب سے گرفتار کیا گیا، ملزم عمران نے بھی عدالت میں اپنے جرم کا اقرار کرتے ہوئے بتایاتھا کہ اسی نے زینب کو زیادتی کا نشانہ بنایا اور قتل کیا، ملزم کے وکیل کی جانب سے پیروی سے انکار کے بعد ملزم کو سرکاری وکیل کی خدمات بھی فراہم کی گئیں، عدالت نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا ۔عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے ننھی زینب کو انصاف فراہم کر دیا،ملزم کو انسداد دہشت گردی عدالت نے 23 جنوری کو 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا، عدالت نے ملزم کو 7 فروری کو دوبارہ 2روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا تھا 9؍ فروری کو پولیس کی جانب سے ملزم کا مکمل چلان عدالت میں پیش کیا گیا، چالان پیش ہونے کے فوراً بعد ملزم کا ٹرائل شروع کر دیا گیا تھا،ملزم نے عدالت کے سامنے اپنے جرم کا اقرار کر لیا تھا، 26جنوری کو زینب کے قاتل لیک ہونے پر سی آئی اے کے اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج ہوا 28جنوری کو زینب قتل پر ازخود کیس کی سماعت سپریم کورٹ رجسٹری میں ہوئی، عدالت نے پراسکیوٹر جنرل کو زینب کیس میں عدالتی معاونت کا حکم دیا اور زینب کے والد اور اسکے وکیل کو کوئی بھی بیان میڈیا پر دینے سے روکدیا، سپریم کورٹ نےقصور میں تعینات ڈیس ایس پی او ایس ایچ او سے متعلق رپورٹ طلب کی اور زینب کے والد کو اپنا بیان ریکارڈ کروانے کا حکم دیا ۔دریں اثناء زینب کے والد امین انصاری نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے فیصلہ سے متعلق میڈیا کو بتایا کہ وہ عدالتی فیصلہ سے مطمئن ہیں جبکہ زینب کی والدہ نے مطالبہ کیا ہے کہ مجرم عمران علی کو سرعام پھانسی دی جائے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے زینب کی والدہ نے کہا کہ مجرم عمران کو عین اس جگہ پھانسی دی جائے جہاں سے وہ زینب کو ساتھ لے کر گیا، یہ صرف زینب کا قاتل ہی نہیں بلکہ کئی معصوم بچیوں کا قاتل ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اسے سرعام سزا دی جائے تاکہ دوسرے لوگوں اس سے عبرت حاصل کریں۔

تازہ ترین