• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک فوج کے مزید دستے سعودی عرب بھیجے جانے کے فیصلے پر گزشتہ روز پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں تحفظات کا اظہار کیا گیا۔سینیٹ کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے عوامی اہمیت کے موضوع کی حیثیت سے اس معاملے کو اٹھایا۔ ان کا موقف تھا کہ پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کی روسے پاکستان کو سعودی عرب اور یمن کے درمیان جاری تنازع میں غیرجانبدار رہنا چاہیے لہٰذاسعودی عرب مزید فوج بھیجنے کا تازہ فیصلہ سنگین اور وضاحت طلب ہے۔ان کا کہنا تھا کہ فوجی ذرائع کے مطابق ہمارے فوجی مشترکہ معاہدے کے تحت بھیجے جائیں گے لیکن ان کی تعداد نہیں بتائی گئی۔کہا گیا ہے کہ بھیجے جانے والے فوجی ایک ڈویژن سے کم ہوں گے لیکن دس کم ہوں گے یا بیس، یہ نہیں بتایا گیا۔فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ یہ اعلان آرمی چیف اور سعودی سفیر کی ملاقات کے بعد کیا گیا ، اس سے پہلے آرمی چیف نے سعودی عرب کا تین روزہ غیر علانیہ دورہ کیا تھا جو دوماہ میں ان کا دوسرا دورہ تھا۔ چیئرمین سینیٹ نے فاضل سینیٹر کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا ۔ انہوں نے پیر کے روز وزیر دفاع کو سینیٹ میں حاضر ہوکر صورت حال کی وضاحت کرنے کی ہدایت بھی کی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریک انصاف کی رکن ڈاکٹر شیریں مزاری نے نکتہ اعتراض پر یہ معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ نے یمن کے معاملے پر قرارداد منظور کی تھی مگر لگتا ہے کہ اس قرارداد کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔پاکستان کے سابق آرمی چیف کو اسلامی فوجی اتحاد کا سربراہ بنایا گیا مگر پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور اب مزید فوج بھیجنے کی خبریں آرہی ہیں لہٰذا پارلیمان میں اس معاملے کی مکمل وضاحت کی جانی چاہیے جبکہ اسپیکر ایاز صادق نے معاملے کی وضاحت کے لیے وزارت خارجہ کو خط لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا۔بلاشبہ یہ ایک بجا اور معقول مطالبہ ہے کہ قومی اہمیت کے تمام فیصلے پارلیمان کی مشاورت اور تائید کے ساتھ کیے جانے چاہئیں ، جمہوری نظام کا اس کے بغیر تصور نہیں کیا جاسکتا جس میں پارلیمان ہی اصل پالیسی ساز ادارہ ہوتا ہے اور تمام معاملات میں حتمی فیصلے کا اختیار پارلیمان ہی کو حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان کے آئین میں بھی پارلیمان کایہی کردار متعین کیا گیاہے۔ اس بناء پر سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان کی جانب سے پاک فوج کے مزید دستے سعودی عرب بھیجے جانے کا معاملہ فیصلے سے پہلے پارلیمان میں پیش نہ کیے جانے پر اعتراض ہرگز بے جا نہیں لہٰذا کم از کم اب اس کوتاہی کا اطمینان بخش طور پر ازالہ کیا جانا چاہیے۔ مزید فوج سعودی عرب بھیجے جانے کے اعلان میں اگرچہ یہ وضاحت شامل تھی کہ اس کا مقصد صرف سعودی افواج کو تربیت دینا ہے لیکن یہ فیصلہ پارلیمنٹ کو پیشگی اعتماد میں لے کر کیا جاتا تو کسی اظہار تشویش اور اعتراض کی نوبت نہ آتی۔ اس حوالے سے اہم ترین بات یہی ہے کہ پارلیمنٹ کی قرارداد میں سعودی یمن تنازع میں پاکستان کے غیرجانبدار رہنے اور پاک فوج کی جانب سے سعودی سرزمین سے باہر جاکر کسی اور ملک میں جنگ میں شریک نہ ہونے کی جو شرائط عائد کی گئی ہیں، ان کی پاسداری کو مکمل طور پر یقینی بنایا جائے اور پاک فوج کا کردار مملکت کے جغرافیائی حدود کے اندر سرزمین حرمین کے دفاع تک محدود رکھا جائے۔ وزیر دفاع خرم دستگیر نے گزشتہ شب اپنے ایک انٹرویو میں وضاحت کی ہے کہ حکومت جنگ کے لیے پاک فوج کے دستے کسی دوسرے ملک نہ بھجوانے کے حوالے سے پارلیمنٹ کی قرارداد پر قائم ہے جبکہ ایک ہزار جوانوں پر مشتمل پاک فوج کا دستہ تربیت اور مشاورت کے لیے سعودی عرب جائے گا اور سعودی مملکت کی علاقائی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوا تو پاک فوج سعودی سرزمین کا دفاع کرے گی۔امید ہے کہ ان کی جانب سے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں پیر کو اس بارے میں متوقع وضاحت ارکان پارلیمان کے لیے اطمینان بخش ثابت ہوگی اور آئندہ اہم فیصلوں میں پارلیمنٹ سے پیشگی مشاورت میں کوتاہی کا مظاہرہ نہیں ہوگا۔

تازہ ترین