• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی مذہب کی مقدس ہستیوں یا شعائر کے بارے میں گستاخی و دریدہ دہنی قابل نفرین جرم ہے۔ تعزیرات پاکستان میں ایک آئینی شق 295-Cکو قانونِ توہین رسالت کہا جاتا ہے، جس کے تحت پیغمبر اسلامؐ کی شان میں کسی بھی نوعیت کی گستاخی کی سزا موت ہے۔ اس حوالے سے البتہ اسلام کے سبھی مکاتب فکر کا اتفاق ہے کہ یہ سزا کوئی بھی انفرادی طور پر نہیں دے سکتا، یہ حق ریاست کا ہے اور یہ عدلیہ کا فریضہ ہے کہ وہ مجرم کو سزا دے۔ عدلیہ کا کام اس لئے اہم ہے کہ بسااوقات ذاتی رنجش یا مفادات کے حصول کے لئے بھی ایسا الزام عائد کردیا جاتا ہے، بہرکیف اس معاملے پر سزا کو لازمی قرار دیا گیا لیکن یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ معاملے کی درست تحقیقات از بس لازم ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے حوالے سے عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ ترمیمی مسودے میں توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والا بھی توہین کا مرتکب تصور ہوگا۔ قانونی ترمیم کے تحت توہین اہل بیت بھی جرم قرار دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ڈرافٹ پر بحث اور ترامیم کی منظوری مقننہ کا کام ہے۔ تعزیرات پاکستان کی متعلقہ شقوں میں بھی ترمیم کی ضرورت ہے۔ وزارت قانون کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس پر کارروائی کرے۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے جس پر لعنت بھیجی جائے اور وہ اس کا مستحق نہ ہو تو یہ لعنت بھیجنے والے پر پلٹ آتی ہے۔ اس تناظر میں دلیل دی جاتی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ کے حوالے سے کوئی گستاخی کسی دوسرے سے غلط طور پر منسوب کرنے کی کوشش کیا بجائے خود گستاخی نہیں؟یہی وہ بات ہے، جس کے بارے میں عدلیہ نے وزارت قانون کو ہدایت کی ہے کہ اس حوالے سے کارروائی کرے۔ عدلیہ نے معاملہ مقننہ کے سپرد کیا ہے اب یہ اس کا فریضہ ہے کہ وہ اس قانون کے متعلق علما سے رہنمائی لے کر ایسے اقدامات کرے کہ توہین رسالت کے قانون پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کیا جائے اور کوئی بھی بدبخت شان رسالت مآبؐ میں گستاخی کی جرات نہ کرسکے۔

تازہ ترین