• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں جمہوریت کے حوالے سے صورت حال بیک وقت قابل فخر بھی ہے اور تشویش ناک بھی ۔ قابل فخر اس لئے ہے کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ جمہوری حکومتیں اپنی دوسری آئینی مدت پوری کرنے جا رہی ہیں ۔ تشویش ناک اس لئے کہ پاکستان کی سیاست صرف الزامات اور گالی گلوچ بن کر رہ گئی ہے ۔ مسلسل تیسرے عام انتخابات کے لئے سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے ۔
یہ اچھی بات ہے کہ پاکستان میں جمہوری عمل جاری ہے ۔ اس 10 سال کے عرصے میںاگرچہ عدالتوں کے ذریعہ دو وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور میاں محمد نواز شریف کو ان کے عہدوں سے ہٹایا گیا لیکن اسمبلیاں برقرار رہیں اور انہوں نے نئے وزرائے اعظم کا انتخاب کیا ۔ بلوچستان جیسے صوبے میں بھی بہت حد تک سیاسی استحکام رہا ۔ گزشتہ ماہ مسلم لیگ (ن) کے وزیراعلیٰ بلوچستان سردار ثناء اللہ خان زہری کو استعفیٰ دینا پڑا اور ان کی جگہ عبدالقدوس بزنجو نے یہ منصب سنبھالا ۔ اس کے پیچھے کھیل کچھ بھی ہو لیکن تبدیلی کا عمل جمہوری اور آئینی طریقے سے مکمل ہوا ۔ اس جمہوری عشرے میں غیر سیاسی قوتوں کی کھلی مداخلت نہیں ہوئی ۔ یہ اور بات ہے کہ آئینی طور پر مداخلت کے راستے بھی بند ہیں ۔ اب ملک مسلسل تیسرے عام انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے ۔ اس وقت تک یوں محسوس ہو رہا ہے کہ آئینی طریقے سے تیسری مدت کے لئے جمہوری حکومتیں قائم ہو جائیں اور پاکستان اپنی تاریخ کا ایک اور سنگ میل عبور کر لے گا ۔ اب پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہونے لگا ہے ، جنہیں جمہوری ممالک کہا جاتا ہے اور جہاں ہر بحران کو سیاسی اور آئینی طریقے سے حل کر لیا جاتا ہے ۔ یہ یقیناً قابل فخر بات ہے ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی ماحول بہتر ہونے کی بجائے بہت خراب ہو گیا ہے ۔ نظریات اور پروگرام کی سیاست ختم ہو گئی ہے ۔ اعلیٰ سیاسی اقدار کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔ اگرچہ سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور شاندار الفاظ میں ڈرافٹ کئے ہیں لیکن وہ منشور ملک کے حقیقی سیاسی ، سماجی اور اقتصادی حالات کے معروضی تجزیے سے خالی ہیں اور کسی بھی منشور میں عالمی اور علاقائی تبدیلیوں کے تناظر میں حالات کا ادراک موجود نہیں ہے ۔ ہر منشور میں لوگوں کے مسائل حل کرنے کے بڑے بڑے دعوے کئے گئے ہیں لیکن ان میں درست حکمت عملی کا فقدان ہے ۔ کسی بھی سیاسی جماعت کا کوئی ایسا پروگرام نہیں ہے ، جو اسے دوسری سیاسی جماعتوں سے ممتاز کرتا ہو یا جس پروگرام سے عوام کو اپنے حالات تبدیل ہونے کی امید ہو ۔ پروگرام کی سیاست نہیں رہی ہے اور نہ ہی لوگوں کی سیاسی جماعتوں سے وابستگی ان کے پروگرامز کی بنیاد پر ہے ۔
سب سے زیادہ تشویش اور شرمندگی والی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان جو زبان استعمال کرتے ہیں ، وہ نہ صرف ریاست کا روں ( اسٹیٹس مین ) اور سیاست دانوں کی زبان نہیں ہے بلکہ ایسی زبان دنیا میں شاید کہیں بھی رائج نہیں ہے ۔ ہمارے ملک میں بغیر ثبوت کے کسی پر الزام لگانا کوئی جرم نہیں ہے اور یہ ایک رواج بن گیا ہے ۔ یہاں کسی کا نام لینا مناسب نہیں ہے لیکن ہمارے ایک دو بڑے سیاست دانوں کی زبان بہت گندی ہے ۔ الزامات کو سیاست کا رائج بیانیہ بنا دیا گیا ہے ۔ ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات بے دھڑک ہو کر لگائے جا ر ہے ہیں ۔ ہمارے سیاست دان جو گفتگو کرتے ہیں ، اس طرح کی گفتگو وہ اگر کسی مہذب ملک میں کریں تو ان کے ایک ایک جملے پر ان کے خلاف مقدمہ درج ہو سکتا ہے اور ایک ہی مقدمے کے فیصلے میں وہ تاحیات سیاست سے باہر ہو سکتے ہیں ۔ ثبوت کے بغیر اور سیاسی مخالفت کی بنیاد پر الزامات لگانے کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ جو حقیقی طور پر کرپٹ ہیں ، وہ بچ جاتے ہیں اور سب بلا امتیاز گندے ہو جاتے ہیں ۔ سیاست دانوں کے اس بیانیہ سے لوگوں کو سیاست سے نفرت ہو رہی ہے اور وہ پھر دوسری طرف دیکھ رہے ہیں ۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں اگر عدلیہ اور فوج کے حق میں بینرز آویزاں ہو رہے ہیں تو اس کا مقصد یہ ہے کہ بینرز آویزاں کرنے والے اس صورت حال کا فائدہ اٹھا رہے ہیں ، جو سیاست دانوں نے پیدا کی ہے ۔
سینیٹ کے آئندہ انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو اپنے ارکان صوبائی اسمبلی پر اعتماد نہیں رہا کیونکہ وہ ان انتخابات میں ووٹرز ہیں ۔ سیاسی جماعتیں اپنے ارکان صوبائی اسمبلی کی انٹیلی جنس اور مانیٹرنگ میں مصروف ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سینیٹ انتخابات میں ارکان صوبائی اسمبلی کی بولیاں لگ رہی ہیں ۔ ایک سینئر سیاست دان سے یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا ہے کہ پاکستان کے ایوان بالا ( سینیٹ ) کو مارکیٹ فورسز سے بچایا جائے اور اسے ایک منتخب ایوان ہی رہنے دیا جائے ۔ اقتدار حاصل کرنے کے لئے ہونے والی جوڑ توڑ میں بھی اخلاقیات اور سیاسی اصولوں کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔ کسی کو یہ اندازہ ہی نہیں ہے کہ جب دوسری جمہوری حکومت کی مدت ختم ہونے جا رہی ہے اور عام انتخابات کے ذریعہ تیسری جمہوری مدت شروع ہونے والی ہے ، پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اور وہ 70 سال کے بعد ’’ پالیسی شفٹ ‘‘ کا رسک لے رہا ہے ۔ پاکستان امریکی کیمپ سے نکل کر اس کی مخالف صف بندی میں اپنی جگہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔ عالمی اور علاقائی سطح پر ہونے والی نئی صف بندیوں میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہے اور پاکستان ہی نئی دنیا کی تشکیل کے دوران عالمی طاقتوں کے مابین ہونے والے ٹکراؤ کا میدان بن سکتا ہے ۔ پاکستان کو داخلی اور خارجی طور پر کئی چیلنجز کا سامنا ہے ، جن سے نمٹنے کے لئے سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے ۔ ہماری سیاسی قیادت میں کوئی ایسا قد آور سیاست دان نہیں ہے ، جو عالمی اسٹیج پر ہونے والے کھیل میں اپنا کردار ادا کر سکے ۔
سیاسی جماعتوں کی قیادت کا داخلہ اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے کوئی وژن نہیں ہے ۔ اس 10 سال کے عرصے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا داخلی معاملہ ہو یا خارجہ پالیسی ہو ، سیاست دانوں نے دونوں سے نہ صرف لاتعلقی اختیار کی ہے بلکہ یہ امور فوجی قیادت پر چھوڑ دیئے ہیں ۔ سفارتی محاذ پر ان 10 سالوں کے دوران سیاست دانوں کے مقابلے میں عسکری قیادت زیادہ سرگرم نظر آئی ہے ۔ گورننس کا معاملہ یہ ہے کہ پینے کے صاف پانی اور اشیائے خورد نوش کی کوالٹی کے معاملات سے لے کر میرٹ کی بنیاد پر تبادلوں اور تقرریوں تک سب کچھ عدلیہ کر رہی ہے اور سویلین حکومتیں ناکام رہی ہیں ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اگلے عام انتخابات میں جانے سے پہلے سیاست دان اپنے کردار اور اپنے اہداف پر نظر ثانی کریں اور بڑی ذمہ داریوں کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں ۔ ورنہ جمہوری عمل کا یہ قابل فخر مرحلہ جمہوریت کے لئے نقصان دہ ہو گا ۔

تازہ ترین