• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو کی کشاکش میں نقصان دونوں کا
دو فرد ہوں، دو بھائی ہوں، دو سیاسی جماعتیں ہوں، دو ادارے ہوں ان کی کھینچ تان میں ملک کے دو ہو جانے کا خدشہ موجود رہتا ہے اور اس طرح دو کی آویزش دو کے دیوالیہ پر منتج ہوتی ہے، یہ بھی بتا دیں کہ سیاست، جمہوریت، حکومت، جملہ ادارے، آئین سبھی اگرچہ ہیں مگر چونچ دم گنوانے تک تو بات سبھی کی پہنچ چکی ہے کسر صرف غیر جمہوری شامت کی ہے، خدا نہ کرے کہ ہم اس طرح کے شہید کہلائیں کہ جہاد کے بغیر آنجہانی ہوجائیں، معقول لڑائیاں اختلاف رائے سے گوناگوں دشنام طرازی کی شکل اختیار کر لیں تو بربادی کا موسم آتا ہے، جو خزاں و بہار سے بالکل مختلف ہوتا ہے، ہم کیوں اپنے وجود کی انفرادیت سے دست کش ہو رہے ہیں اس لئے تو ہم خود مختار ہو کر بھی خود مختار نہیں رہے، کہیں ہم استعمال تو نہیں ہو رہے، ہمارا والہانہ پن کہیں ہماری انتہا پسندانہ سوچ تو نہیں، ابھی تک کوئی خیر کی خبر نہیں، کہیں شہر میں خیر تو تلاش نہیں کر رہے؟ خیر ذاتی ہو تو شر ہے اجتماعی ہو تو ’’ستے ای خیراں‘‘ کہیں ہم خیر پر بھی سودا بازی تو نہیں کر رہے، انا پرستی، ذاتی مفاد کی محبت ہم سے وہ جوہر چھین رہی ہے جو ہجوم کو قوم بناتی ہے، فرد فرد، میاں بیوی، ادارہ ادارہ، میں جنگ انفرادی ہو تو شکست اجتماعی اگر اپنی ’’میں‘‘ کو قربان نہیں کر سکتے تو ایک دوسرے کی میں کو گزند پہنچانے سے پرہیز تو کر سکتے ہیں اسلام کا ایک آفاقی اصول ہے کہ اچھائی کو رائج کرو برائی کو روکو، اس لحاظ سے ہر فرد قوم کے مقدر کا ستارہ بن سکتا ہے، اور ہر فرد کی ایک حکومت قائم ہو سکتی ہے، حکمرانی ایسی عاجزی ہے جس کا حکم چلتا ہے اور میٹھا پھل لاتی ہے، مگر ہم اپنی انا کو کسی کے لئے بھی مفید نہیں بناتے، اگر انا مفید ہو تو یہ قومی غیرت ہے۔ نقصان دہ ہو تو بے غیرتی ہے، جس غیرت کے نام پر ہم اپنوں کو مارتے ہیں وہ معاشرے سے شرم و حیا چھین لیتی ہے شرمناک جرائم کا ٹمپو تیز ہو جاتا ہے، ہماری سیاست ذاتی ریاست کا قیام ہے، اسی لئے ریاست اور اس کا نظام کمزور ہوتا جا رہا ہے، اگر ایک گالی دیتا دوسرا خاموش رہتا ہے تو اچھے اور برے انسان میں فرق قائم رہتا ہے، یہ نہ ہو تو نیکیاں بھی گناہ بن جاتی ہیں، کہ گندے برتن میں دودھ خراب ہو جاتا ہے۔
٭٭٭٭
بَر افگن پردہ!
وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے کہا ہے:پرہیز گاری کے لبادے میں بددیانت ہر جگہ پائے جاتے ہیں یہ نہایت اونچے درجے کا دانشورانہ بیان ہے، ایک ہی جملے میں پورے ملک پوری قوم کی تطہیر کو واجب قرار دے دیا، وہ بددیانت ہرگز نقصان دہ نہیں جس کی بددیانتی سب کو نظر آ جائے نقصان کا باعث وہ بددیانتی ہے جو زہد و تقویٰ کا لباس پہن کر کیا جائے، حافظ شیرازی نے ایسے ہی لبادے بارے کہا تھا؎
ایں خرقہ کہ من دارم دَر رہنِ شراب اولیٰ
دین دفترِ بے معنیٰ غرق مئے ناب اولیٰ
(یہ لبادہ جو میں نے پہن رکھا ہے اور یہ دکھاتا ہوں کہ صوفی و صافی ہوں اسے تو رہن رکھ کر شراب حاصل کرنا کہیں زیادہ بہتر اور یہ جو بے معنیٰ قسم کی معلومات رکھتا ہوں اور یہ میرا دیوان ہے یہ تو خالص و اصل نسل کی شراب میں غرق ہو جائے زیادہ اچھا ہے) سعد رفیق ہمیشہ ایسی بات کرتے ہیں کہ اس کی زد سے کوئی بچ نہیں سکتا، وہ ایک وسیع تر مفہوم میں حقیقت بیان کر جاتے ہیں، اب یہ بات آبِ زر سے لکھنے کے قابل کہ بددیانت کہاں نہیں پائے جاتے، اور دیانتداروں سے بھی ابھی دنیا خالی نہیں ہوئی، انہوں نے کوئی لحاظ نہیں کیا سب کو لپیٹ میں لے لیا کہ کوئی بھی ادارہ ہو اس میں اچھے برے پائے جاتے ہیں اور مزے کی بات ہے کہ انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ بُرے نے زہد و تکشف اور صلاح و فلاح کا لبادہ اوڑھ رکھا ہوتا ہے، ’’بادی النظر‘‘ میں انہوں نے گویا کہہ دیا کہ ’’درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری‘‘، انہوں نے متبدا بیان کیا تو ہم خبر بیان کر کے جملہ مکمل کئے دیتے ہیں کہ اگر منظر یہ ہے کہ بددیانت نے دیانت کا جبہ پہن رکھا ہے اور یہ ہر جگہ پائے جاتے ہیں تو حکم یہی ہے کہ امر بالمعروف اور تہی عن المنکر لاگو کرنا ہر انسان کا فرض ہے، اگر دجل و فریب کو خرقۂِ سالوس سے باہر نہ نکالا گیا تو ہماری روحانی جسمانی ساری پونجی لٹ جائے گی، لٹیرے کو پکڑنا صرف پولیس کا کام نہیں محلے والے بھی اسے پکڑ کر پھینٹی لگا سکتے ہیں۔
٭٭٭٭
’’پیرس‘‘، مویشیوں سے خالی کرائیں
ہم اس موضوع پر کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں کہ لاہور شہر میں خالص دودھ تو نہیں ملتا، مگر یہ جو خالص بھینسیں ہر جگہ نظر آتی ہیں ان سے تو شہر نگاراں کو خالی کیا جائے تاکہ ہم پیرس کی جانب کم از کم مویشی کے حوالے سے تو ایک قدم بڑھا سکیں، شاید سارے لاہور میں یہ استثنائے اشرافیہ علاقوں، مویشی بندھے کھلے عام ہوں لیکن ہمارا مشاہدہ فتح گڑھ سے ہربنس پورہ سے تابہ خاک واہگہ نہر کے دونوں طرف عوامی رہائشی علاقوں میں ڈنگر راج ہے، خالی پلاٹوں پر گندا پانی جوہڑ کی صورت ہے یا وہاں بھینسوں کا باڑا ان علاقوں میں داخل ہوتے ہی گوبر کی سوندھی سوندھی بو استقبال کرتی ہے، اگر ان کے مالکان سے بصد ادب بھی عرض کیا جائے کہ یہ ظلم نہ کریں، گوبر کے ڈھیروں پر مچھر، مکھی اور کئی اقسام کی بیماریاں پرورش پاتی ہیں تو سمجھیں کہ دشمنی کا باب کھل گیا، جب یہ قانون پاس ہو گیا تھا کہ لاہور سے مال مویشی باہر کر دیئے جائیں گے، اور ایک گوالا کالونی بھی بنائی گئی تو پھر کیا وجہ ہے کہ چند ووٹوں کی خاطر لاتعداد ووٹروں کی بَلی چڑھائی جائے، عوام کو کیوں کالانعام سمجھ کر مویشیوں کے ساتھ رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے، یہ کام حکومت پنجاب کے متعلقہ ذمہ دار محکموں کا ہے مگر وہ اس سلسلے میں کوئی آپریشن کلین اپ نہیں کرتے۔ ہم وزیر اعلیٰ پنجاب سے گزارش کرتے ہیں کہ آپ جس لاہور کو پیرس بنانے چلے تھے وہ بھینس نگر بنتا جا رہا ہے۔ اگر گوبر کے انبار گندے پانی کے پلاٹ مفید صحت ہوتے تو ہم انہیں بسر و چشم قبول کرتے مگر یہاں تو مکھی، مچھر، بدبو اور ان سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا راج ہے، خالی پلاٹوں سے بھینسوں کے قبضہ باڑے ختم کئے جائیں نوازش ہو گی۔
٭٭٭٭
پیسے دے کے مرا بھلا نہ ہوا
....Oامریکہ:دہشتگردی، منی لانڈرنگ معاملات میں پاکستان کی کوتاہیوں پر تشویش ہے۔
یہ سب آپ کی مہربانی سے ہے، کیونکہ سپر پاور ہی اِن سب فتنوں کا سپر سرچشمہ ہے۔
....Oعائشہ گلالئی:ن لیگ نے فوج کے خلاف بات کرنے پر اکسایا،
اگر یہ سچ ہے تو پھر پیسے کھوٹے ہیں،
....Oزرداری:رائو انوار بہادر بچہ، نقیب کیس کو میڈیا نے ہوا دی،
آپ کے ایسے اور کتنے بہادر بچے ہیں جن میں آپ ہوا بھرتے ہیں، میڈیا تو صرف ہوا دیتا ہے تاکہ خلق خدا کو معلوم ہوکہ پولیس کو بہادر کون بناتا ہے، اور میڈیا کو بزدلی پر مجبور کرنے کی سازش کون کرتا ہے؟
....Oصدیق الفاروق:حدود میں رہ کر کام کرنے والے پر تنقید نہیں ہو گی، حدود کی وضاحت فرما دیں تاکہ ذہن کسی اور طرف نہ جائے۔

تازہ ترین