• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ کے الیکشن کا جوڑ توڑ اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔کہتے ہیں بلوچستان کی سیٹیں سب سے قیمتی سمجھی جاتی ہیں ۔اس کے لئے بلوچستان کی کابینہ مسلم لیگ ن سے لینی ضروری تھی ۔اور اب ایک رات میں اقلیتی وزیر اعلیٰ جن کا تعلق مسلم لیگ ق سے تھا ۔میدان میں لاکر پہلا میدان مارلیا گیا ۔دوسرا بڑا معرکہ سندھ کے ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے گروپوں میں جاری ہے ۔نادان مہاجروں کو آپس میں بڑی ہوشیاری سے لڑواکر گروپوں میں تقسیم کردیا گیا ہے ۔جو ایک دوسرے کو برسوں سے ساتھ رہ کر اب للکار رہے ہیں وہ بھی صرف ایک آدمی کی خاطر جو راتوں رات ایم کیوایم فاروق ستار گروپ میں شامل کرایا گیا اوربغیر مشورہ کئے رابطہ کمیٹی میں اُس کو فوقیت دے کر ڈپٹی کنونیر رابطہ کمیٹی بنا دیاگیا ۔اور جب حلقہ پی ایس 114کراچی میں ضمنی الیکشن میں اُس کو لڑوایا گیا تو عبر ت ناک شکست کے باوجود اُس کو دوبارہ سینیٹ کا ٹکٹ بھی دے دیا گیا ۔جو شخص پرویزمشرف کو انکل کہتا رہا اور پھر مسلم لیگ فنکشنل کے وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم کو بے وقوف بناتا رہاہواور جس کی وجہ سے پی پی پی سے جھگڑا بھی لیا گیا ۔اب وہ پی آئی بی اور بہادر آباد گروپوں کو لڑواکر یقیناََکسی اور کو فائدہ پہنچا رہا ہے ۔کالم کے چھپنے تک کیا نتیجہ نکلے گا وہ تو پتہ نہیں ہے۔ مگر مہاجروں کے ووٹوں کی تقسیم آنے والے الیکشن میں مکمل تباہی کا راستہ ایک بار پھر کھول دے گی اور اس طرح پی پی پی جو کراچی میں پہلی بار ضمنی الیکشن پی ایس 114میں اپنے امیدوار سعید غنی کا جتواکر پہلا معرکہ سر کرچکی ہے۔ اسی ٹوٹ پھوٹ کا فائدہ اُٹھاکر سینیٹ میں آسانی سے سیٹیں خرید کردوبارہ اپنی برتری قائم رکھے گی۔ کیونکہ ایم کیوایم کے صوبائی اسمبلی کے ممبران بانی متحدہ سے علیحدگی کے بعد اپنا مستقبل اندھیرے میں سمجھتے ہیں لہٰذا وہ اپنا ووٹ بیچ کر ہی آخری بار اپنی جیبیں گرم کرلیںگے، رہی بات مہاجر قوم کی تو وہ 1985کے بعد ایک مرتبہ پھر یتیم ہوجائے گی ۔اس میں بانی متحدہ کو زبردست پذیرائی ملے گی کہ وہ ایک طرف قوم کو لوٹ کر اُن کے حقوق کا سودا بڑی آسانی سے سندھ کے حکمرانوں سے مل کرکرتا رہا ۔اور دہشت گردی کی آڑ میں ایک طرف تو مہاجروں کو بے وقوف بناتا رہا تو دوسری طرف اپنے کارندوں کو بڑی خوبصورتی سے استعمال کرتا رہا کسی میں اتنی جرأٗت نہیں تھی کہ اُس کے غلط فیصلوں پر ایک لفظ بھی بول سکتا۔ آج تین گروپ جس طرح ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کررہے ہیں ۔ اس صورتحال میں مہاجر قوم مضطرب ہے ،اس کا مستقبل اب تاریکی کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ڈھائی کروڑ باشندوں کاشہرجو اُجڑ کر پہلے ہی کھنڈر بن چکا ہے اسے کون ٹھیک کرے گااوراس کے ساتھ ساتھ مہاجروں کے ووٹوں کا کیا بنے گا؟ َ
آج تک پی پی پی کی حکومت اندرون سندھ کو ترقی نہیں دے سکی جہاں سے وہ ووٹ لے کر کامیاب ہوتی ہے۔لاڑکانہ اور نواب شاہ جیسے شہروں کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی اور کھنڈر کانقشہ پیش کررہی ہیں ۔ تو بھلا وہ کراچی جیسے شہر کو کیسے جگمگا ئیں گے ۔جہاں سے اُن کو صرف دو3آبائی سیٹیں ہی 30پینتیس سال سے مل رہی ہوں۔ رہا سوال مسلم لیگ ن کا تو انہوں نے کبھی پنجاب سے باہر کام ہی نہیں کیا۔خو دسابق وزیراعظم نواز شریف نےگزشتہ 40سال میں سوائے پرویز مشرف کے دور میں جیل کے علاوہ ایک رات بھی کراچی میں نہیں گزاری تو انہیں کراچی والوں کے احساس محرومی کاکیسے معلوم ہو۔آخری امیدیں پی ٹی آئی کے عمران خان سے تھیں جنہیں گزشتہ الیکشن میں کراچی والوں نے ووٹ بھی دیئے اور پذیرائی بھی دی مگر ان 5سالوں میں اُن کی پارٹی والوں نے بھی کراچی میں ایک دفتر تک نہیں کھولا۔ مدد تو دور کی بات ہے خود عمران خان صاحب بھی ایک رات کراچی میں نہیں گزارسکے تو کراچی والوں کے دکھ درد میں کیسے شامل ہوتے ۔
اب آخری امیدوں کا سپنا نئی جماعت پی ایس پی کے مصطفی کمال کی طرف مہاجروں کو راغب کررہا ہے اگر چہ پی ایس پی پر مہاجروں کے تحفظات بھی ہیں ۔ اُس کی وجہ ان کا ماضی بانی ایم کیو ایم کے ساتھ منسلک رہا ہے مگر بحیثیت میئر کراچی مصطفی کمال نے کراچی کو اپنے دور میں پاکستان کا سب سے خوبصورت شہر کا درجہ بھی دلوایا تھا یہی ان کا کارنامہ سمجھاجاتا ہے ۔اور یہی مہاجروں کی آخری امیدسمجھی جارہی ہے ۔خود ایم کیو ایم کے پہلے ہی بہت سے ایم پی ایز ان کے ساتھ آچکے ہیں جن کاماضی داغدار نہیں ہے ۔اور جن پر الزام ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم مجبور تھے ہماری جانوں کو خطرہ تھا ۔اس وجہ سے ہم ہرجائز ناجائز احکامات ماننے پر مجبور تھے ۔اب ہم توبہ کرچکے ہیں اور اپنے کئے پر شرمندہ ہیں اور آئندہ اپنے مہاجربھائیوں کے حقو ق کے لئے دن رات ایک کرکے ماضی کا ازالہ کرینگے۔اب اس کو آخری کرن سمجھ کر مہاجر ان کے ساتھ شامل ہوکر اپنا مستقبل محفوظ کرسکتے ہیں اور اپنےساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرسکتے ہیں ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نوجوان مصطفی کمال نے کراچی کے شہریوں کا دل جیتا ہوا ہےاور وہ دوبارہ بھی یہ کارنامہ انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اگر جماعت اسلامی ،جے یو آئی اور چھوٹی جماعتیں پی ایس پی کا ساتھ دیں تو کراچی والے دوبارہ اس شہر کی رونقیں بحال کراسکیں گے یا پھر تمام مہاجر گروپس آپس میں ضم ہوجائیں وگرنہ مہاجر ووٹ بکھرجائےگا اور دوسری پارٹیاں اس سے فائدہ اُٹھائیں گی۔

تازہ ترین