• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹولو خلکو تہ سلام (آپ سب کو میرا سلام )
آپ سب کو معلوم ہے کہ ہم پشتونوں کی اردو اتنی اچھی نہیں ہوتی اس لئے میں نے سوچا تھا کہ پشتو میں ہی خط لکھوںگا تاکہ میرے جذبات و احساسات کی صحیح ترجمانی ہو سکے لیکن یہاں کراچی کے ایک ایسے اردو اسپیکنگ دوست مل گئے جنہیں زبان و بیان پر عبور حاصل ہے ۔چونکہ یہ خودبھی رائو انوار کی بدولت یہاں پہنچے ہیں اس لئے جب میں نے چٹھی لکھنے کی خواہش ظاہر کی تو وہ فوراًمیرے خیالات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کو تیار ہو گئے۔آج پاکستان سے دو خبریں یہاں پہنچیں ،ایک خبر سن کر عالم برزخ کے سب مکینوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ ہماری ننھی پری زینب کے درندہ صفت قاتل کو سزائے موت سنادی گئی ہے اور بہت جلد یہ سفاک مجرم اپنے انجام کو پہنچ جائے گا مگر دوسری خبر جس نے مجھ سمیت یہاں موجود بیشمار لوگوں کومشتعل کر دیا وہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے رائو انوار سے متعلق تعریفی و توصیفی کلمات ہیں۔آصف زرداری کا کردار تو پہلے بھی مشکوک تھا اور بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ رائو انوار کے رسہ گیر دراصل آصف زرداری ہیں لیکن میری رائے یہ تھی کہ ایسے کرائے کے قاتل سب کو دستیاب ہوتے ہیں اور عین ممکن ہے اس نے آصف زرداری کے کہنے پر بھی ماورائے عدالت قتل کئے ہوں مگر رائو انوار کو دیگر طبقات کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔یہ ان کا لے پالک اور منہ بولا بیٹا ہے جو سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کا ٹرائل نہیں ہونے دیتے۔لیکن آصف زرداری نے اس بزدل ترین شخص کو ’’بہادر بچہ ‘‘ کہہ کر یہ راز کھول دیا ہے کہ قانون کی وردی میں قانون کی دھجیاں اڑانے والا یہ جلاد صفت شخص ان کا بغل بچہ ہے۔میں تو آصف زرداری صاحب سے بس اتناکچھ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے بیان پر جتنا مرضی افسوس کا اظہار کرلیں لیکن سچ وہی ہے جو آپ کے منہ سے نکل گیا بس اتنا جان لیں کہ یہ ’’بہادربچے ‘‘من کے سچے نہیں کھوٹے ہوتے ہیں اورکسی سے وفا نہیں کرتے ۔یہ پیشہ ور قاتل کسی کو معاف نہیں کرتے۔شاید آپ کو یاد نہیں کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر)نصیر اللہ بابر نے بھی طالبان کو اپنے بچے کہا تھا اور انہی طالبان نے بینظیر کو مار ڈالا۔ویسے برا نہ مانیں تو یہ بتا دیںرائو انوار ہو یا پھر پرویز مشرف، یہ سب ’’بہادر بچے ‘‘ قانون کا سامنا کرنے سے کیوں ڈرتے ہیں ؟
مجھے معلوم ہے کہ آپ سب میری داستان حسرت سننا چاہتے ہیں ،میں بھی آج اپنا دل چیر کر آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ۔اتنا تو آپ سب جانتے ہیں کہ مجھے ماڈلنگ کا شوق تھا اور یہی شوق مجھے کراچی لے آیا ۔ ہمارے علاقے کو قبائلی علاقہ کہا جاتا ہے جسے آپ لوگ علاقہ غیر بھی کہتے ہیں کیونکہ یہاں پاکستان کے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا ۔میرا بھی یہی خیال تھا کہ اب میں ایک ایسے شہر میں ہوں جہاں قانون کی حکمرانی ہے ۔لیکن اب بعد از مرگ سوچتا ہوں کہ اصل علاقہ غیر تو آپ لوگوں کے یہ شہر ہیں جہاں وردی والے جب جسے چاہیں دہشتگرد قرار دیکر مار ڈالیں تو نہ صرف یہ کہ ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی بلکہ جمہوریت کے علمبردار انہیں ’’بہادر بچے ‘‘ کا خطاب بھی دیتے ہیں۔چونکہ میرے خیالات منتشر ہیں اس لئے بار بار موضوع سے بھٹک جاتا ہوں ۔میں ماڈل بننا چاہتا تھا تاکہ شہرت حاصل کرنے کے بعد پشتونوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کہہ سکوں کہ ’’مائی نیم اِز خان اینڈ آئی ایم ناٹ ٹیررسٹ ‘‘۔جب ماڈلنگ کا موقع نہ ملا تو میں نے سوچا فی الحال حصول رزق کے لئے کپڑے کی دکان بنا لیتا ہوں ۔کراچی کے باقی علاقے تو ہم پشتونوں کے لئے ویسے ہی علاقہ غیر ہیں تو سہراب گوٹھ میں دکان خریدنے کا فیصلہ کیا ۔اسی اثنا میں 3جنوری کا دن آگیا جب کالی وردی والے اغواکارمجھے کوئی وجہ بتائے بغیر اٹھا کر لے گئے۔پورے پاکستان میںشاید کہیں بھی کسی پشتون کو گرفتار کرنے کے لئے کوئی وجہ درکار نہیں ہوتی بس پشتون ہونا ہی شک کے دائرے میں کھڑا کرنے کے لئےکافی ہے۔اس کے بعد جو ہوا ،وہ شاید آپ تو جی کڑا کرکے سن لیں مگر میں یہ دردناک داستان سناتے ہوئے ایک بار پھر مر جائوں گا ۔
آج میں اپنی ماں سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔جس ماں نے مجھے پیدا کیا ،اس کی گود میں سر رکھ کر تو میں نے کئی بار باتیں کیں مگر آج میں اپنی دھرتی ماں سے مخاطب ہوں ۔بچپن سے ہی ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ ماں صرف جنم دینے والی نہیں ہوتی بلکہ مادرِوطن بھی ماں ہوتی ہے جو اپنے شہریوں کو آغوش میں لئے رکھتی ہے اور ان پر آنچ نہیں آنے دیتی۔لیکن تکلف برطرف،ہمیں تو اس ماں نے آج تک کبھی سینے سے نہیں لگایا ۔اگر یہ ریاست ہم سب کی حقیقی ماں ہوتی تو اس کے پیار میں کوئی تفاوت یا تفریق نہ ہوتی ۔لیکن یوں لگتا ہے جیسے کچھ بچے اس ماں کو محبوب و مرغوب ہیں تو بعض بچے معتوب و مصلوب بلکہ نامطلوب ہیں۔پشتونوں کا شمار بھی اس ماں نے ہمیشہ ان چاہے اور بن مانگے بچوں میں کیا یا کم از کم ان سے روا رکھے گئے سلوک سے یوں لگا جیسے یہ سوتیلے بچے ہیں۔ میرے اردو اسپیکنگ دوست جو یہ خط لکھ رہے ہیں ان کا بھی یہی شکوہ ہے کہ ریاست بچوں کو امتیازی سلوک کے نتیجے میں ناخلف اور گستاخ بناتی ہے اور پھر ڈائن کی طرح کھا جاتی ہے تو اسے پیار کرنے والی ماں کا رتبہ کیسے دیا جائے ؟بلوچ بھی اپنی دھرتی ماں سے یہی گلہ کرتے ہیں کہ انہیں اپنے حصے کا پیار نہیں ملا۔یہی رائو انوار جسے آصف زرداری بہادر بچہ قرار دے رہے ہیں اس نے سینکڑوں مہاجر اور پشتون نوجوانوں کا جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کیا ہے ۔کیا وہ کرائے کا قاتل بہادر ہوتا ہے جوبے گناہ لوگوں کے ہاتھ اور پائوں باندھ کر گولیاں مارے؟ عین ممکن ہے جن لوگوں کو پولیس مقابلوں میں مارا جاتا ہے ان میں سے بعض واقعی جرائم پیشہ ہوں لیکن کسی پر مقدمہ چلائے بغیر اسے قتل کرنے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟میں آج کسی شخص یا ادارے سے مخاطب نہیں بلکہ اپنی ماں سے بات کرنا چاہتا ہوں ۔یہ کیسا مذاق ہے کہ بھوسے کے ڈھیر سے سوئی ڈھونڈ نکالنے کی شہرت رکھنے والے ایک مفرور کا سراغ لگانے سے قاصر ہیں ؟یہ کیسا انصاف ہے کہ انوکھے لاڈلے کو محض ایک گمنام خط پر حفاظتی ضمانت دیدی جاتی ہے اور وہ پھر بھی سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوتا؟کیا ریاست اپنے طرز عمل سے یہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ اس کے لاڈلے بچے جو چاہیں کرتے پھریں ،کوئی قانون ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا؟کیا یہ بتانا مقصود ہے کہ قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جو محض سوتیلے بچوں کو پھانسنے کے لئے بُناجاتا ہے؟ بچوں کو احساس محرومی کے تیزاب اور سوتیلے پن کے عذاب سے بچانا ہے تو پھر ریاست کو عملاً یہ ثابت کرنا ہو گا کہ یہ رائو انوار جیسے ظالموں کی ماں ہے یا پھر نقیب اللہ جیسے مظلوموں کی ماں ہے ؟ پشتونوں سمیت تمام مجبور و مقہور بچوں کو یہ بتانا ہو گا کہ یہ ریاست مادرِ علاتی (سوتیلی ماں ) ہے یا پھر مادرِگیتی (دھرتی ماں )؟
انہی الفاظ کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں ۔
آپ کا اپنا ویر(پنجابی میں آپ لوگ بھائی کو ویر کہتے ہیں اور مجھے بھی میرے دوست ویر کے نام سے جانتے ہیں )
نسیم اللہ محسود المعروف نقیب اللہ محسود

تازہ ترین