• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سچ کی سوداگر۔عاصمہ جہانگیر ! پس آئینہ…حناپرویز بٹ(ممبر پنجاب اسمبلی)

گیارہ فروری کو آسمان وکالت کی واحد کہکشاں کیا بجھی پاکستان بھر کے وکلاء کی جانب سے تعزیتی پیغامات کا ایسے تانتا بندھا جیسے کہ اپنے وقت کا کوئی ولی وفات پاگیا ہو۔ ایک روز وقفہ کے بعد انہیں سپرد خاک کردیا گیا۔ نمازجنازہ مولانا مودودی کے بیٹے فاروق حیدر مودودی نے پڑھائی۔ پرنم آنکھوں سے ہر زبان پر تسبیح جاری تھی جس کو جس قطار میں جگہ ملی وہ وہیں پر سما گیا۔ میں نے زندگی میں ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ نماز جنازہ میں شرکت کرنے کے لئے معروف سیاسی، سماجی رہنماؤں اور ملک بھر سے وکلاءکی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب خواتین نے بھی جنازہ کو کندھا دیا اورجنازہ میں شرکت کی۔ بیٹی منیزے جہانگیر کا کہنا تھا کہ وہ محض ماں نہیں بلکہ ایک دوست نما قابل فخر و قابل تحسین مرشد تھیں۔ اصول وضع کرلینے کے بعد جس عزم مصمم سے وہ اس پر ڈٹی رہتی تھیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں کس طرح محض اکیس سالہ قانون کی طالبہ عاصمہ جہانگیر نے اپنے والد کی غیرقانونی نظر بندی کا کیس خود لڑا جب جنرل یحییٰ خان کے ڈر سے کوئی ان کے والد کا کیس لڑنے کیلئے تیار نہ تھا۔ انہوں نے نہ صرف یہ کیس لڑا بلکہ جیتا بھی۔اس پر انہیں شیرنی کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔ دوسری طرف خواتین کی امداد کے لئے عاصمہ جہانگیر کے بنائے گئے سنٹر ’’دستک‘‘ کا منظر انتہائی سوگوار تھا۔ لڑکیاں اور نگران لپٹ لپٹ کر ایسے زاروقطار رو رہی تھیں جیسے ان کی ماں مر گئی ہو۔ ان میں سے بیشتر کا کہنا تھا کہ کیا بتائیں کہ وہ ہماری کیا تھیں؟ خدا انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ بلاشبہ ان کا شمار ایسی شخصیات میں کیا جاسکتا ہے جو جس طرف بھی گئے اپنا نشان چھوڑ گئے۔ جب انہوں نے پہلی دفعہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا الیکشن لڑا تو متعدد سینئر وکلاء اور ساتھیوں نے کہا آپ یہ الیکشن نہ لڑیں تو انہوں نے کہا میں خواتین کے لئے راستہ کھولنا چاہتی ہوں۔ اس سیٹ پر انتخاب صرف مرد کیوں لڑیں؟ بہت سے سینئر وکلاء نے ہار کی پیش گوئی بھی کی تھی لیکن انہوں نے نہ صرف یہ الیکشن باوقار طریقہ سے لڑا بلکہ جیتا بھی۔ عاصمہ جہانگیر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آج شائستہ قیصر نائب صدر ہائیکورٹ بار کا الیکشن لڑ رہی ہیں۔ بشریٰ قمر چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی پنجاب بار کونسل منتخب ہوچکی ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کے کریڈٹ پر بہت سے تاریخی کیس ہیں۔1993 میں جب سلامت مسیح کو توہین مذہب کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تواس موقع پر اس حساس کیس میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چند شرپسندوں نے مذہب کا نام استعمال کرتے ہوئے اس بچے کو پھنسایا تھا جس پر عدالت کو تسلیم کرنا پڑا کہ سزائے موت کا فیصلہ غلط تھا۔ یہ عاصمہ ہی تھیں جنہوں نے پاکستانی عدالت سے ملک کی عورتوں کو مرضی کی شادی کرنے کا حق دلایا۔ یحییٰ خان سے لیکر پرویز مشرف تک ہر آمر کی انکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا انھی کا خاصہ تھا۔ وہ واحد خاتون وکیل تھیں جنہوں نے اپنے دور کے ہر آمر کے خلاف آواز اٹھائی۔ جیل بھی گئیں سڑکوں پر مار بھی کھائی لیکن حق کا راستہ نہ چھوڑا۔ آج عاصمہ اس دربار میں پیش ہوگئیں ہیں جہاں کے فیصلے کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کئے جاسکتے۔11 فروری کو جب ان کے انتقال کی خبر نشر ہوئی تو سوشل میڈیا سے لیکر مین اسٹریم میڈیا ہر طرف ان کی موت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ کیا وکلاء کمیونٹی کیا سیاسی و غیرسیاسی حلقے، بڑی تعداد نے اظہار تعزیت کیا لیکن معیوب اذہان کے نفرت آمیز تبصرے جب سوشل میڈیا پر سامنے آئے تو انہیں پڑھ کر دل خون کے آنسو رو دیا۔ یہ کیسے لوگ ہیں شاید نہیں جانتے کہ ان کا دین تو ہمسائیوں کے حقوق پورے نہ کرنے پر بھی تعزیز عائد کردیتا ہے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ ان کا مذہب دیکھا دیکھی کسی کو گالی دینے کی اجازت نہیں دیتا ہے؟ کیا ان کا مذہب بغیر تحقیق کئے کسی پر الزام لگانے کی اجازت دیتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کب تک ایسے لوگ بغیر سوچے سمجھے ملک اور مذہب کے نام پر دوسروں کو گالیاں دیتے رہیں گے؟ میری گزارش ہے کہ بس کردیں اور نفرت کا بیانیہ بند کردیں کسی کو تو معاف کردیں ۔ ایسے لوگوں کو پتہ ہونا چاہئے کہ جنت یا دوزخ میں داخلہ خدائی اختیار ہے لہٰذا اس کے سرٹیفکیٹ بانٹنا بند کردیں۔ اب یہ چورن نہیں بکے گا۔ آہ عاصمہ جہانگیر..... ہم آپ کو بہادر اور سچ کی سوداگر کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
انا للّہ و انا الیہ راجعون

تازہ ترین