• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ان مائوں ، جن کے قدموں تلے جنت ہے، کی پھول جیسی بیٹیوں کو کس بیدردی سے روندا گیا ہے۔ کیا قصور تھا اس کلی کا جو بِن کھلے مرجھا گئی؟ کیا قصور تھا حوا کی اس بیٹی کا جس کی خوشبو سے کسی کا آنگن مہکتا تھا۔ وہ صاف شفاف بہتے پانی جیسی ننھی آبشار جسے ابھی بڑھنا تھا، وہ آئینہ جس نے ابھی دنیا کا رخ کرنا تھا، وہ ایسی ٹھنڈی ہوا جو ابھی سحر کے انتظار میں تھی کہ کب فجر کی اذان کان پڑے اور کب وہ بادِ نسیم بن کر جھوم اٹھے۔ کیا قصور تھا اُس کے ماں باپ کا جن کی دعائوں کا ثمر تھی وہ معصوم بچی، یہی نہ کہ وہ اسے اندھیرے جنگل میں، جو درندوں سے خالی نہ تھا، میں اکیلا چھوڑ گئے۔ کب تک، آخر کب تک حوا کی عصمت کو تار تار کیا جائے گا۔، آخر کب تک کوئی گدھ معصوم کلیوں کے گلشن میں تباہی مچاتا رہے گا۔ کیوں خونِ غیرت منجمد ہو کر رہ گیا ہے؟ کیوں ماں کی آنکھ سے گرنے والا آنسو دُعا کے اثر میں شامل ہو کر شرفِ قبولیت حاصل نہیں کر رہا؟ آخر کب ان درندوں کی پکڑ ہو گی؟ آخر کون ان شیطان نفس سفاک انسانوں کی گردنوں میں موت کے شکنجے جکڑے گا؟ ایک دن ضرور جگنوئوں کی طرح ٹمٹماتی روشنی کو آس اور امید کی طرح ہاتھ میں لئے حوا کی بیٹیوں کے آنگن میں چمکتا ماہتاب روشن ہو گا۔ اس دن عزتوں کا سودا کرنے والے قہر الٰہی میں مبتلا ہوں گے اور حوا کی بیٹیاں سجدئہ شکر بجا لائیں گی۔
(دامیا تحسین)

تازہ ترین