• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تو خود دہشت گردی کا شکار ہے اس پر دہشت گردی کا الزام کیوں؟

پاکستان میں ایک طرف آئندہ عام انتخابات کے تناظر میں سیاسی افراتفری، بے یقینی اور ہنگامہ آرائی زور پکڑ رہی ہے تو دوسری طرف مخالف غیر ملکی قوتیں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لئے سازشوں میں مصروف ہیں۔ پیرس میں اتوار کو شروع ہونے والا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا چھ روزہ اجلاس اسی سلسلے کی کڑی ہے جس میں بھارت کے ایما پر ہمارے نام نہاد سٹریٹجک اتحادی امریکہ کی اس قرار داد پر غور کیا جائے گا جس کا مقصد پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کرنا ہے جو دہشت گردوں کی مالی امداد اور منی لانڈرنگ کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ ٹاسک فورس دنیا کی بڑی معاشی قوتوں سمیت 35اہم ممالک کی تنظیم ہے جو دہشت گردوں کی مالی امداد کے معاملات کی نگرانی کرتی ہے۔ تنظیم کو کسی ملک پر براہ راست پابندی لگانے کا اختیار نہیں تاہم وہ اسے گرے یا بلیک لسٹ میں شامل کر سکتی ہے جس سے اس ملک کو معاشی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان ماضی میں تین سال تک گرے لسٹ میں شامل رہا تاہم حکومت اینٹی منی لانڈرنگ قانون بنا کر اسے اس فہرست سے نکلوانے میں کامیاب ہو گئی، اب پھر پاکستان پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس نے اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیئے گئے گروپوں کے خلاف اقدامات نہیں کئے اس بنا پر اسے دوبارہ گرے لسٹ میں شامل کیا جا سکتا ہے تنظیم میں شامل زیادہ تر ممالک کےساتھ پاکستان تجارتی شراکت دار ہے۔ ان میں امریکہ اور یورپی یونین بھی شامل ہیں۔ امریکی قرار داد کی منظوری کی صورت میں وہ پاکستان پر تجارتی پابندیاں لگا سکتے ہیں امریکہ بھارتی دبائو میں جماعت الدعوۃ اور اس کے خیراتی ادارے فلاح انسانیت فائونڈیشن کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ اس کے خیال میں یہ جماعت مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین آزادی کی مدد کر رہی ہے۔ دنیا اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ جموں و کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازعہ علاقہ ہے اور وہاں نہ صرف حریت کانفرنس اور دوسری آزادی پسند تنظیمیں بھارتی تسلط کے خلاف بر سر پیکار ہیں بلکہ بھارت نواز کٹھ پتلی حکومت بھی کشمیریوں پر مظالم رکوانے کے لئے آواز بلند کر رہی ہے۔ دوسری طرف افغانستان میں امریکہ کی زیر قیادت 32 ممالک کی افواج دہشت گردوں پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہوئی جبکہ پاکستان نے تنہا اپنے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کر کے ان کا صفایا کر دیا امریکہ پاکستان کے اقدامات سے سبق سیکھنے اور افغانستان میں امن قائم کرنے کے بجائے پاکستان پر ناجائز دبائو بڑھا رہا ہے۔ وہ کشمیر کے معاملے میں بھی بھارت کا ہمنوا بن گیا ہے حالانکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کا وہ خود محرک تھا۔ پاکستان پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کے بے بنیاد الزامات کے پیچھے کابل اور دہلی کے ہاتھ کارفرما ہیں اور امریکہ کے مسلم دشمن صدر ٹرمپ ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں جبکہ دہشت گردوں کی مالی امداد کنٹرول کرنا پاکستان کے نیشنل ایکشن پلان کی ترجیحات میں شامل ہے اور اس پر سختی سے عمل ہو رہا ہے۔ امریکہ اور اس کے ہمنوا اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دیں۔ آرمی چیف جنرل باجوہ نے اس حوالے سے درست کہا ہے کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے پاکستان میں نہیں، افغانستان میں ہیں وزیر دفاع خرم دستگیر کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ امریکہ پاکستان پر ناجائز دبائو ڈالنے کے لئے ٹاسک فورس کا سیاسی استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے عزائم ناکام بنانے کے لئے دنیا بھر میں سفارت کاری مہم چلائی ہے جس سے توقع ہے کہ ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان کےخلاف قرارداد منظور نہیں ہوگی۔ تاہم حکومت کو چاہئے کہ حوالہ اورہنڈی کے حوالے سے کوئی باقاعدہ میکانزم اختیار کرے تاکہ پاکستان دشمن قوتوں کو وطن عزیز کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے کوئی بھی بہانہ نہ مل سکے۔

تازہ ترین