• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل جو کچھ ہو رہا ہے، کبھی سوچا نہ تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے اس کے متعلق دنیا کے بیشتر انسانوں نے کبھی سوچا نہ تھا، جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے اس کے متعلق بھی کچھ عرصہ پہلے تک سوچا نہیں جا سکتا تھا۔ اس پر بعد میں بات کرتے ہیں پہلے ذرا مندر کی بات ہو جائے۔ یہ بھی کچھ عرصہ پہلے تک نہیں سوچا جا سکتا تھا کہ عرب میں مندر بنے گا، بھگوان بولے گا اور خطۂ عرب میں اس طرح پوجا ہو گی۔ قابلِ افسوس بات تو یہ ہے کہ چودہ سو سال بعد سرزمین عرب پر بت خانہ قائم ہوا ہے، دولت اور اقتدار کیا عجیب چیزیں ہیں انسانوں سے وہ کچھ کروا دیتی ہیں جس کا انہوں نے کبھی سوچا نہیں ہوتا۔ ایک بڑے بت خانے کا سنگ ِ بنیاد ہندوستان کے رہنما اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے رکھ دیا ہے، کئی عرب وہاں بڑے خوش نظر آئے، کچھ نے تو خوشی کے ان لمحات میں باقاعدہ ہاتھ جوڑ لئے۔ ہو سکتا ہے مودی جی اگلا آپشن اشنان کا بھی دے دیں، ویسے تو عرب میں بہت سی بیچز ہیں ہی، ہو سکتا ہے کہ ساحل پر نہانے والوں کو اشنان کا درجہ دے کر مودی جی ’’عبادات‘‘ میں اضافہ کروا دیں۔
عرب میں مندر کی تعمیر پر میں مودی کے پاکستانی دوستوں کو بھی بطور خاص مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔ یہ مبارک اس لئے بنتی ہے کہ یہاں بہت سے لوگ مودی جی کے خاص دوست ہیں ۔کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ عرب میں پھر سے بت خانہ بنے گا، کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ پاکستان کا کوئی وزیر اعظم کسی بھارتی وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں اس طرح شریک ہو گا جس میں صاف نظر آرہا تھا ’’مبارک ہو، مبارک ہو‘‘۔ کیا کبھی آپ نے سوچا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم ناشتہ کابل میں، لنچ لاہور میں اور ڈنر دہلی میں کرے گا مگر یہ بھی میاں صاحب کے طفیل ہو گیا، مودی نے صبح ناشتہ کابل میں کیا، وہاں پاکستان کو برا بھلا کہا، میرے پیارے پاکستان کو گالیاں دیں اور پھر ایک وزیر اعظم کے باعث دوپہر کو لاہور آ گیا، وہ اپنے پیاروں کے لئے ’’پیازی پگڑیاں‘‘ لایا، پتہ نہیں ساتھ کون کون آیا تھا، اس کون کون میں اجیت کمار دوول شامل تھا، اس کالے جادوگر نے پاکستان کے خلاف بہت سی حکمت عملیاں مرتب کیں، اس نے نہتے کشمیریوں پر ظلم بڑھانے کے لئے بھی کئی کام کئے۔ ایسا ہو سکتا تھا، یہ کبھی سوچا نہ تھا۔ مجھے تو عربوں پر حیرت ہو رہی ہے کہ وہ کس راستے پر چل پڑے ہیں وہاں بادشاہتیں ہیں، وہاں کا حکمران طبقہ مغربی ملکوں میں جائیدادیں بناتا ہے، ان کا طرز زندگی پُرتعیش ہے، حال ہی میں کچھ عرب شہزادے کرپشن کے الزامات میں عرب میں گرفتار ہوئے تھے، ہو سکتا ہے گرفتاریوں کے بعد ان کی آنکھیں کھلی ہوں کہ زندگی کی مشکلات کیا ہیں کیونکہ ان شہزادوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ ان کے ملکوں میں لوگ کس حالت میں رہتے ہیں؟ ناانصافیاں عطا کرنے والے نظام نہیں چلتے۔ عرب میں چودہ سو سال بعد بت خانے کی تعمیر پتہ نہیں کس کی خوشی کیلئے کی گئی ہے۔ مجھے اس مرحلے پر نبی پاک ﷺ کا ایک فرمان یاد آ رہا ہے کہ ’’قیامت قائم نہیں ہو گی، یہاں تک کہ عرب کے کچھ قبائل مشرکین کے ساتھ مل کر بتوں کی عبادت نہ کرنے لگیں۔‘‘
آج کل پاکستان میں ایک نااہل وزیر اعظم اور ان کی بیٹی ججوں اور اعلیٰ عدلیہ پر بہت تنقید کر رہے ہیں، یہ تنقید یقیناً انہیں مہنگی پڑے گی۔
نہال ہاشمی کی اڈیالہ یاترا بعد مریم نواز کے خاص حواری تو عدلیہ کے بارے میں خاموش ہیں اب عدلیہ کو برا بھلا کہنے کی ساری ذمہ داری میاں نواز شریف اور مریم نواز پر ہے، ایک عام اور پکا پاکستانی ہونے کے ناتے میری ان سے گزارش ہے کہ آپ بقول زرداری صاحب کے ’’گریٹر پنجاب‘‘ کا خواب چھوڑیں اور پاکستانی عدالتوں کا احترام کریں، آپ کے پاس جتنی بھی دولت ہے، جائیدادیں ہیں، اثاثے ہیں وہ تمام کہاں سے بنے، اس ’’کہاں‘‘ کے لئے آپ کے پاس صرف ایک ’’قطری خط‘‘ تھا جو کب کا ردی کی ٹوکری کی نذر ہو چکا ہے۔ آپ کی تمام چیخ و پکار کیوں ہے، کیا سب کا احتساب نہیں ہونا چاہئے؟
خواتین و حضرات! اس وقت شریف فیملی عدالتوں پر تنقید اس لئے کر رہی ہے کہ اس فیملی کی خواہش ہے کہ انہیں توہین عدالت میں سزا ہو جائے، انہیں بغاوت میں سزا ہو جائے مگر کرپشن پر سزا نہ ہو لیکن یہ بات یاد رکھیے کہ شریف فیملی کو کرپشن پر سزا ہو گی اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے حق میں کچھ بھی نہیں دیا۔ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں، سوائے باتوں کے کچھ بھی نہیں، ایک ’’قطری خط‘‘ تھا وہ ردی کی ٹوکری میں جا چکا ہے۔ کیلیبری فونٹ کا معاملہ پکڑا جا چکا ہے، جب جائیدادوں کے ڈھیروں پر کھڑے ہو کر صرف ایک قطری خط اور کیلیبری فونٹ دکھایا جائے، جب جھوٹ بولا جائے تو پھر رسوائی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
اگلے پندرہ روز میں پاکستانی عدالتوں سے بڑے بڑے فیصلے ہوں گے، لوگوں کو وہ کچھ ہوتا ہوا نظر آئے گا جو انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا، اب قانون اور انصاف کے شکنجے میں وہ لوگ ہوں گے جو لوگوں پر ظلم کرتے تھے، لوٹ مار کرتے تھے، اپنے ملک سے پیسہ چرا کر دوسرے ملکوں کو آباد کرتے تھے۔ جی ہاں! ایک خوبصورت پاکستان کے لئے ایسا بھی ہو سکتا ہے اور یہ سب کچھ ہونے جا رہا ہے، اسی لئے پاکستان کا ظالم طبقہ پریشان ہے، پاکستان کے تمام مافیاز پریشان ہیں، اسی لئے تو چیخ و پکار ہے، یہ حالات خراب کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ یہ سب ایک دوسرے کو ریحانہ قمرؔ کی یہ ہائیکو سناتے ہوں گے
پھر پھول کھلیں شاید
اس بار تو لگتا ہے
ہم پھر نہ ملیں شاید

تازہ ترین